دوحہ،17جولائی(انڈیا نیرٹیو)
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان کی کشیدہ صورتِ حال پر افغان حکومتی وفد اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہو گئے۔افغان میڈیا کے مطابق طالبان وفد کی سربراہی ملا عبدالغنی برادر کر رہے ہیں، جب کہ افغان سیاسی وفد کی سربراہی عبداللّٰہ عبداللّٰہ کر رہے ہیں۔افغان سیاسی وفد میں عبداللّٰہ عبداللّٰہ کے علاوہ محمد کریم خلیلی، عطاءمحمد نور، معصوم ستانک زئی، سلام رحیمی، فاطمہ گیلانی، سعادت منصور نادری شامل ہیں۔
افغان میڈیا کے مطابق مذاکرات کے لیے دوحہ جانے والے 10 رکنی افغان سیاسی وفد میں سابق افغان صدر حامد کرزئی شامل نہیں ہیں۔سیاسی وفد کی کابل سے دوحہ روانگی سے قبل سابق افغان صدر حامد کرزئی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان سیاسی وفد مکمل طور پر بااختیار ہے جو طالبان سے مذاکرات کرے گا۔
یہ وفد ایک ایسے وقت میں قطر پہنچا ہے جب دوسری طرف افغانستان کے طول وعرض میں طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان گھسان کی جنگ جاری ہے۔قومی مفاہمت کے لیے سپریم کونسل کے سربراہ اور حکومت کے سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ نے کہا ہے کہ تنازعات میں اضافے اور طالبان کیہاتھوں مختلف علاقوں پر قبضے کے باوجود مذاکرات کی کوششیں جاری رکھیں گے۔انہوں نے مذاکراتی وفد کی قطر روانگی سے قبل کابل ایئرپورٹ پر کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ طالبان اس امن کے اس موقعے سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کو ادراک ہونا چاہیے کہ علاقوں پر قبضے سے امن قائم نہیں ہوتا۔انہوں نے مزید کہا کہ امن صرف مذاکرات کی میز پر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ تمام تر تکالیف کے باوجود مجھے لگتا ہے کہ اب بھی امن کا ایک موقع موجود ہے۔
طالبان اور افغان فوج کے مابین جھڑپیں مزید علاقوں تک پھیل گئی ہیں جب کہ امریکی زیرقیادت بین الاقوامی فوجیں ملک سے پیچھے ہٹ رہی ہیں۔طالبان نے متعدد صوبائی دارالحکومتوں کو گھیرے میں لے لیا اور شمال اور مغرب میں متعدد علاقوں اور سرحدی گزرگاہوں کو اپنے کنٹرول میں کرلیا ہے۔طالبان کے مذاکرات کاروں اور افغان حکومت کے مابین ہفتوں سے بات چیت جاری ہے لیکن حکام نے متنبہ کیا ہے کہ اگلے ستمبر تک غیر ملکی افواج کے انخلا تک بات چیت میں نمایاں پیش رفت کا کوئی امکان نہیں۔