Urdu News

روزانہ ہزاروں پاکستانی دہشت گردوں کی افغانستان میں دراندازی

پاکستان اور افغانستان سرحد

روزانہ ہزاروں پاکستانی دہشت گردوں کی افغانستان میں دراندازی،اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خلاصہ

کابل، 28 جولائی (انڈیا نیرٹیو)

پاکستان میں روزانہ ہزاروں دہشت گرد افغانستان میں طالبان کی حمایت کے لیے دراندازی کر رہے ہیں۔ اس کی تصدیق اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، افغانستان میں چھ ہزار سے زیادہ پاکستانی طالبان دہشت گرد موجود ہیں۔

افغانستان کے محکمہ انٹیلی جنس کے سابق چیف رحمت اللہ رابیل کے مطابق، چونکہ پاکستان کی سرحد پر واقع اسپن بولدک شہر پر طالبان کے قبضے سے، ایک ہفتہ سے ہر روز ہزاروں پاکستانی دہشت گرد افغانستان میں گھس رہے ہیں۔ انہوں نے افغان فوج کو متنبہ کیا، اگر اسپن بولدک پر دوبارہ قبضہ نہیں کیاگیا تو ملکی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہوگا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں مقیم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے 6000 سے زیادہ دہشت گرد طالبان کے ساتھ ساتھ افغان فوج کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق افغانستان میں متعدد ممالک اور تنظیموں کے دہشت گرد سرگرم ہیں۔ ان غیر ملکی دہشت گردوں کی تعداد 8 اور 10 ہزار کے درمیان ہے۔ ان میں سے بیشتر وسطی ایشیاء، شمالی قفقاز کے علاقے، پاکستان اور سنکیانگ سے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد بنیادی طور پر افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں سرگرم ہیں۔

ادھر، نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ نیٹو ممالک افغانستان کی حکومت کی حمایت جاری رکھیں گے۔ انہوں نے صدر اشرف غنی سے بات چیت کی اور انہیں حمایت جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی۔

معلومات کے مطابق، افغان فوج نے صوبہ بلخ کے ضلع قلدار کا ایک بار پھر کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ فوج نے ایک بار پھر نیمروز صوبہ کے چخنسور، بامیان کے کاہ مرداورسائی گھن پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ صوبہ کاپیسا کے نجراب ضلع پر قبضہ کرنے والے دہشت گردوں کو فوج نے پسپا کردیا۔ اسی دوران، افغان فوج نے طالبان کو صوبہ تخار کے صدر مقام تالقان سے فرار ہونے پر مجبور کردیا۔ یہاں فوج نے 28 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔

امریکہ ہر سال 400 ملین ڈالر کی امداد دے گا

امریکہ اور نیٹو ممالک طالبان سے لڑنے والی افغان حکومت کو مالی مدد کی شکل میں ہر سال $ 400 ملین (تقریبا تیس ہزار کروڑ روپئے) دیں گے۔ یہ امداد 2024 تک جاری رہے گی۔ یہ رقم افغانستان کی فوجی سکیورٹی پر خرچ ہوگی۔

Recommended