شام میں انسانی حقوق کے لیے کام کر نے والے ادارے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے تصدیق کی ہے کہ جمعرات سے درعا گورنری میں ہونے والے خونریز واقعات کے نتیجے میں عام شہری اور شامی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 32 تک پہنچ گئی ہے۔آبزر ویٹری کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کے روز سیدرعا میں جاری خون ریز جھڑپوں کے نتیجے میں 12 عام شہری مارے گئے۔ شامی فوج کی طرف سے شہریوں پر راکٹوں، مشین گنوں اور مارٹر گولوں کی شیلنگ کی گئی۔ جھڑپوں میں 11 مقامی جنگجو اور 9 شامی فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
آبزرویٹری نے کہا ہے کہ کئی زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے جس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا اندیشہ ہے۔دوسری طرف جنوبی شام میں درعا گورنری میں روس کی سرپرستی میں حکومتی فورسز اور ان کے وفادار گروہوں اور مقامی جنگجوؤں کے درمیان لڑائی کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔درعا کو عوامی احتجاج کا "گہوارہ" سمجھا جاتا ہے۔10سال قبل اسی شہر سے شامی حکومت کے خلاف احتجاج کا آغاز ہوا جو کچھ دنوں میں پورے ملک میں پھیل گیا تھا۔ اگرچہ اپوزیشن کے دھڑوں نے 2018 میں فوجی آپریشن کے بعد روس کی سرپرستی میں بشارالاسد کے ساتھ تصفیہ کے معاہدے پر دستخط کیے تھیمگر اس کے باوجود اکثر یہاں پر حکومتی فورسز اور مقامی جنگجوؤں کیدرمیان حملے ہوتے رہتے ہیں۔
رصدگاہ کے مطابق جمعرات کو شروع ہونے والے تصادم کو تین سال میں "سب سے زیادہ پرتشدد" سمجھا جاتا ہے۔رصد گاہ نے بتایا کہ مقامی شخصیات کی نمائندگی پر مشتمل مذاکرات بھی جمعرات کو شروع ہوئے۔ دوسری طرف شامی فوج نے مذاکرات میں حصہ لیا تاہم اس کے باوجود فریقین میں جھڑپیں بھی جاری رہی ہیں۔درعا واحد گورنری ہے جہاں سے 2018 میں حکومت کے دوبارہ کنٹرول کے بعد بھی اپوزیشن کے حامی جنگجو وہاں پر موجود ہیں۔