Urdu News

چیف جسٹس این وی رمن نے پولیس اور پولیس کے طریقۂ کار پر سوالیہ ریمارکس کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی زیر نگرانی سب سے زیادہ حقوق انسانی کا خطرہ

چیف جسٹس آف انڈیا

نئی دہلی: چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) این وی رمنا(CJI NV Ramana) نے اتوار کو کہا کہ تھانوں میں حقوق انسانی کی خلاف ورزی کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حراست میں تشدد اور دیگر پولیس مظالم ملک میں اب بھی جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’خصوصی حقوق یافتہ لوگوں کو بھی ’تھرڈ ڈگری‘ کے تشدد سے نہیں بخشا جاتا ہے‘۔ انہوں نے ملک میں پولیس افسران کو حساس بنانے کی بھی پیروی کی۔ نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی(NALSA) کے چیف سرپرست چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ قانونی مدد کے آئینی حقوق اور مفت قانونی خدمات کی فراہمی کے بارے میں اطلاعات کی تشہیر پولیس کی زیادتیوں کو روکنے کے لئے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا، ’ہر ایک تھانے‘، جیل میں ڈسپلے بورڈ اور ہورڈنگ لگانا اس سمت میں ایک قدم ہے‘۔ ساتھ ہی کہا کہ نالسا کو ملک میں پولیس افسران کو حساس بنانے کے لئے قدم اٹھانا چاہیے۔

جسٹس رمن وگیان بھون میں قانونی سیوا موبائل اپلی کیشن اور نالسا کے نظریے اور ’مشن اسٹیٹمنٹ‘ کی شروعات کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔ موبائل ایپ غریب اور ضرورتمند لوگوں کو قانونی مدد کے لئے درخواست دینے اور متاثرین کو معاوضے کا مطالبہ کرنے میں مدد کرے گا۔ نالسا کی تشکیل لیگل سروسز اتھارٹی ایکٹ، 1987 کے تحت سماج کے کمزور طبقات کو مفت قانونی خدمات فراہم کرنے اور تنازعہ کے خوشگوار حل کی سمت میں لوک عدالتوں کا انعقاد کرنے کے لیےکیا گیا تھا۔

’انصاف تک پہنچ‘ پروگرام کو مسلسل چلنے والی مہم بناتے ہوئے سی جے آئی نے کہا کہ قانون کے حکومت کے زیر انتظام معاشرہ بننے کے لئے ’زیادہ سے زیادہ خصوصی حقوق حاصل اور سب سے کمزور لوگوں کے درمیان انصاف تک پہنچ کے فرق کو پاٹنا‘ ضروری ہے۔ انہوں نے کہا، ’اگر ایک ادارے کے طور پر عدلیہ شہریوں کا اعتماد حاصل کرنا چاہتی ہے تو ہمیں سبھی کو مطمئن کرنا ہوگا کہ ہم ان کے لئے موجود ہیں۔ لمبے وقت تک کمزور آبادی انصاف کے عمل سے باہر رہی ہے‘۔

ماضی مستقبل کا تعین نہیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا، ’ماضی سے مستقبل کا تعین نہیں ہونا چاہئے اور سبھی کو مساوات لانے کے لئے کام کرنا چاہئے‘۔ انہوں نے کہا، ’حقوق انسانی اور جسمانی چوٹ، نقصان کا خطرہ تھانوں میں سب سے زیادہ ہے۔ حراست میں تشدد اور دیگر پولیس کے مظالم ایسی پریشانیاں ہیں، جو ہمارے معاشرے میں اب بھی موجود ہیں۔ آئینی اعلانات اور گارنٹیوں کے باوجود، تھانوں میں موثر قانونی نمائندگی کی کمی گرفتار یا حراست میں لئے گئے اشخاص کے لئے ایک بڑا نقصان ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے کہا، ’ان شروعاتی گھنٹوں میں لئے گئے فیصلے بعد میں ملزم کو خود کا بچاو کرنے کی صلاحیت کو متعین کریں گے۔ حال کی رپورٹوں کے مطابق، پتہ چلا کہ خصوصی اختیارات یافتہ لوگوں کو بھی ’تھرڈ – ڈگری‘ والے تشدد سے نہیں بخشا جاتا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی اور طویل، محنت کش اور مہنگے عدالتی عمل جیسی موجودہ رکاوٹ ہندوستان میں ’انصاف تک پہنچ‘ کے اہداف کو شرمندہ تعبیر کرنے کے بحران میں اضافہ کرتی ہیں۔ دیہی ہندوستان اور شہری آبادی کے درمیان ڈیجیٹل دوری کا حوالہ دیتے ہوئے سی جے آئی نے کہا، ’جن لوگوں کے پاس انصاف تک پہنچ نہیں ہے، ان میں سے بیشتر شہریوں اور دردراز کے علاقوں سے ہیں، جو کنیکٹیویٹی کی کمی کے شکار ہیں۔ میں نے پہلے ہی حکومت کو خط لکھ کر ترجیحات کی بنیاد پر ڈیجیٹل وقفے کو پاٹنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

سی جے آئی نے مشورہ دیا کہ ڈاک نیٹ ورک کا استعمال مفت قانونی مدد خدمات کی فراہمی کے بارے میں بیداری لانے اور ملک کے دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے اشخاص تک قانونی خدمات کی پہنچ بڑھانے کے لئے کیا جاسکتا ہے۔ سی جے آئی نے وکیلوں، خصوصی طور پر سینئر وکلا کو قانونی مدد کی ضرورت والے لوگوں کی مدد کرنے کے لئے کہا اور میڈیا سے نالسا کے ’خدمات کے پیغام کو عام کرنے کی صلاحیت‘ کا استعمال کرنے کی گزارش کی۔

Recommended