Urdu News

اقلیتی طبقہ اقتدار میں حصے داری اور سماجی تبدیلی کے لیےکوشاں

اقلیتی طبقہ اقتدار میں حصے داری اور سماجی تبدیلی کے لیےکوشاں

لکھنو کے پریس کلب میں قومی حصّے داری اور سماجی تبدیلی کے عنوان سے ملک گیر سطح کی کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس میں انسانی حقوق کی بازیابی کے لئے ملک کی مختلف ریاستوں کے علماء اور دانشوروں نے آواز احتجاج بلند کی بیشتر مقررین نے اپنی تقریروں میں یہ واضح کیا کہ آزادی کے بعد سے ابتک پسماندہ اور دبے کچلے لوگوں کے حقوق صلب کئے جارہے ہیں۔ ہندوستان کی اقلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا جارہاہے صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی اور منظم سازش کے تحت ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کو مختلف موضوعات کی بنیاد پر ہدف بنایا جارہاہے اور فرقہ پرست طاقتیں بر سر اقتدار لوگوں کی پشت پناہی کے بموجب وہ سب کچھ کر رہی ہیں جو ایک جمہوری ملک میں کسی طرح بھی روا نہیں۔ سیاست سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں مسلمان اب حاشیے پر بھی نہیں ان کی حالت دلتوں اور دوسرے پسماندہ لوگوں سے بھی بد تر ہو گئی ہے۔

امامیہ ایجوکیشنل ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے اتر پردیش بنگال بہار گجرات اور اترا کھنڈ کے دانشوروں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر مسلمانوں اور دلتوں کو اب بھی ان کے حقوق فراہم نہ کیے گئے تو ملک کی جمہوریت داغدار ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کے سارے دعوے اور منصوبے اپنے بے معنی ہونے کا احساس کراتے رہیں گے معروف دانشور و عالم دین اور پروگرام کے کنوینر مولانا علی حسین قمی نے مسلمانوں کی قربانیاں یاد دلاتے ہوئے کہا کہ علماء اور مجاہدین کے بغیر ملک کی آزادی کا خواب شرمندہءِ تعبیر نہیں ہوسکتا تھا ۔جن لوگوں نے اس ملک کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا آج ان کو نہ صرف نظر انداز کیا جارہاہے بلکہ انہیں جبر و تشدد کا نشانہ بناکر ان کی تباہی کو یقینی بنایا جارہا ہے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والے لوگوں کو ارباب حکومت کا تعاون مل رہاہے ۔

مسلمانوں کے تعلیمی سماجی اور معاشی حقوق کی بحالی اور بازیابی کے ساتھ ان کے مذہبی حقوق کے لئے بھی آوازیں بلند کی گئیں محرم کے پیش نظر لکھنئو کی عزاداری کے تعلق سے حکومت کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے علماء نے کہا کہ محرم کے سلسلہ میں ضلع انتظامیہ کی طرف سے اترپر دیش میں تعزیہ بنانے والوںپر جو سختی کی جا رہی اس کی ہم مذمت کرتے ہیں کورونا وبا کے دوران لو گوں کا روزگار چھن گیا ہے اب جو لو گ تعزیہ بنا کر ہدیہ کرتے ہیں ان کو بھی پریشان کر روزگار چھیننے کی کو شش کی جا رہی ہے ۔ مولانا علی حسین نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ سبھی اضلاع میں حکم جاری کرے کہ تعزیہ بنانے والے کاریگروں کا روزگار نہ چھینا جائے اور انہیں پریشان نہ کیا جائے ۔اس موقع پر گجرات سے لکھنئو پہنچے مولانا حسن علی راجانی نے حسین آباد ٹرسٹ کے سکریٹری سے اپیل کی ہے کہ جب چھوٹے امام باڑے میں کورونا ویکسین لگ رہی تھی اس وقت سیکڑوں کی تعداد میں لوگ آتے تھے ۔ اس کے علاوہ بڑے امام باڑے میں روزانہ بڑی تعداد میں سیاحوں کو آنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن جس مقصدکے لیے چھوٹے امام باڑے اور بڑے امام باڑے کی تعمیر ہوئی ہے ۔

اس مقصد کوپورا کرنے کا وقت آیا تو تبرکات و مجالس پر پابندیاں اور شرائط نا فذ کیے جا رہے ہیں جو نہایت افسوس ناک ہے ۔ مولانا نے لکھنؤشہر کے علماو ذاکرین ونوابین اودھ کے ورثاءسے اپیل کی ہے کہ وہ لوگ سامنے آئیں اور ضلع مجسٹریٹ سے ملاقات کر اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ وقف حسین آباد مبارک کی جانب سے بڑے امام باڑےچھوٹے امام باڑےشاہ نجف کے علاوہ دیگر متعلقہ امام باڑوں وروضوں پر کورونا گائڈ لائن کے مد نظر مجالس وغیرہ کے پروگرام کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے ۔

مولانا نے کہا کہ تمام اضلاع میں دیکھا گیا ہے کہ سیا سی پر وگراموں میں کورونا گائڈ لائن کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں لیکن اس پر کسی طرح کی کوئی سختی نہیں کی جا رہی ہے ۔ لہذا ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ شہا دت امام حسینؑ کے مو قع پر جو مجالس منعقد ہوتی ہیں جس میں ہر مذہب کے لوگ شریک ہوتے ہیں اور انسانیت ، ہمدردی ، یکجہتی کی تعلیم دی جا تی ہے اور کورونا وبا کے خاتمہ کی دعائیں کی جا تی ہیں لہذا عزاداروں کو پریشان نہ کیا جائے۔ اور ایسی گائڈ لائن جاری کی جائیں جس سے لوگ محفوظ رہتے ہوئے عزاداری اور محرم کے تمام پروگراموں کو بخوبی مکمل کر سکیں کیونکہ محرم کوئی تہوار نہیں بلکہ ان شہیدوں کے رنج وِش غم منانے کا موقع ہے جنہوں نے انسانیت کو بچانے کے لئے قربانیاں پیش کی ہیں۔

Recommended