Urdu News

افغانستان: طالبان کابل کے بے حد قریب،کیوں امریکہ نے سفارت خانے سے خفیہ دستاویزات برباد کرنے کا حکم دیا؟

افغانستان: طالبان کابل کے بے حد قریب

طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبے اپنے آپ ان کے قبضے میں آ رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ طالبان کی طرف سے کوئی تشدد نہیں کیا جارہا ہے۔ سہیل شاہین نے کہا، ’ہم صوبائی مراکز کو پر قبضہ زبردستی نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ  خود ہمارے پاس آرہے ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے ہمارے قبضے میں آرہے ہیں۔ آپ سیکورٹی اہلکاروں کے سینکڑوں اور ہزاروں ویڈیو دیکھ سکتے ہیں۔

افغانستان(  Afghanistan Crisis)میں طالبان(Taliban) کو لے کر کابل(Kabul) کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس درمیان امریکہ کے محکمہ دفاع نے کہا ہے کہ راجدھانی کسی ’سنگین خطرہ‘ یا آنے والے مسائل  کا سامنا نہیں کر رہی ہے۔ کابل سے ہزاروں لوگوں کو ایئر لفٹ سے لانے کی تیاری کر رہے امریکہ نے کہا کہ باغی طالبان شہر کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ طالبان نے افغانستان کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا ہے۔ خبر ہے کہ باغی کابل سے محض 50 کلو میٹر کی دوری پر ہیں۔ طالبان نے ایک دن پہلے ہی لوگر صوبہ راجدھانی پل علم کو اپنے قبضے میں لیا ہے۔

وہیں امریکہ نے اپنے سفارت خانہ کے ملازمین کو حساس اشیا کو برباد کرنے کے لئے کہا ہے۔ حکم نامہ میں کہا گیا ہے، ’سفارت خانہ یا ایجنسی کے لوگ، امریکی پرچم یا ان سامانوں کو بھی برباد کردیں، جن کا پروپیگنڈہ پھیلانے کے لئے غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ بھی افغانستان کی صورتحال پر باریکی سے نظر بنائے ہوئے ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا، ’فی الحال اقوام متحدہ کے اسٹاف کو نکالنے کا کام نہیں چل رہا ہے، لیکن اقوام متحدہ نے افغانستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر قندھار اور تیسرے بڑے شہر ہیرات سمیت اپنا اسٹاف کم کر دیا ہے‘۔

نرم رویہ نہیں اپنا رہا ہے کابل

نیوز ایجنسی اے این آئی سے بات چیت میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا، ’ہم کابل سے بات چیت کی امید کرتے ہیں۔ پُرامن حل تک پہنچنے کے لئے انہیں آگے آنا چاہئے اور نرمی دکھانی چاہئے، کیونکہ ہمارے لوگوں کو اس کی ضرورت ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا جلد ہی ہوگا، لیکن عمل سست ہے۔ ہم امید کرتے ہیں، لیکن عمل میں سستی بنی ہوئی ہے‘۔ انہوں نے کہا، ’پہلی بات تو یہ کہ وہ حل تک پہنچنے اور لچیلا پن دکھانے کا خواہاں نہیں ہے۔ ہمارے بندیوں کو رہا کرنے اور ہماری بلیک لسٹ ہٹانے میں کچھ پریشانیاں ہیں، جو دوحہ معاہدہ میں واضح طور پر لکھا ہے، یہ بھروسہ قائم کرنے کا بے حد ضروری علاج ہے‘۔

اس دوران انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبے اپنے آپ ان کے قبضے میں آ رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ طالبان کی طرف سے کوئی تشدد نہیں کیا جارہا ہے۔ سہیل شاہین نے کہا، ’ہم صوبائی مراکز کو لے کر رہے ہیں اور خود ہمارے پاس آرہے ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے ہمارے قبضے میں آرہے ہیں۔ آپ سیکورٹی اہلکاروں کے سینکڑوں اور ہزاروں ویڈیو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ وہ ہمارے حق میں آرہے ہیں اور جڑ رہے ہیں، لیکن وہ تشدد کے سبب ہمارے ساتھ نہیں آ رہے ہیں‘۔

ترجمان نے کہا، ’معصوم لوگوں کے ساتھ تشدد اور قتل کابل انتظامیہ کی طرف سے کیا جارہا ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم کیوں اپنے لوگوں سے تشدد بڑھانے کے لیے کہیں گے۔ جبکہ یہ ہماری پالیسی کے خلاف ہے‘۔ اس دوران سہیل شاہین نے طالبان کے تار پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں سے جڑنے ہونے کی بات سے انکار کیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ افغان کی زمین کا استعمال ہندوستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف نہیں ہوگا۔

Recommended