افغانستانAfghanistan کے نائب صدر امر اللہ صالحAmrullah Saleh نے جاری بحران میں ایک نیا موڑ شامل کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ اشرف غنیAshraf Ghani کے جنگ زدہ ملک سے بھاگنے کے بعد اب نگراں صدر ہیں۔
15 اگست کو جب طالبان کابل میں داخل ہوئے اسی وقت صالح نے ٹویٹ کیا کہ ’’میں کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں طالبان دہشت گردوں کے سامنے نہیں جھکوں گا۔ میں اپنے ہیرو، کمانڈر اور لیجنڈ احمد شاہ مسعود کی روح اور میراث سے کبھی غداری نہیں کروں گا۔ میں لاکھوں کو مایوس نہیں کروں گا جنہوں نے میری بات سنی۔ میں کبھی بھی طالبان کے ساتھ ایک چھت کے نیچے نہیں رہوں گا‘‘۔
امر اللہ صالح کون ہے؟
اکتوبر 1972 میں پیدا ہونے والے صالح کا تعلق تاجک نسلی گروہTajik ethnic group سے ہے اور وہ بہت چھوٹی عمر میں یتیم ہو گئے تھے۔ وہ طویل عرصے سے طالبان کے خلاف جدوجہد کا حصہ رہے ہیں۔ سنہ 1990 میں پہلی بار مرحوم احمد شاہ مسعودAhmad Shah Massoud کے شمالی اتحاد کے ساتھ جنگ کی جس نے اقتدار میں آنے پر طالبان کا مقابلہ کیا۔
اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق صالح کی بہن کو 1996 میں طالبان نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ صالح نے گزشتہ سال ایک ٹائم میگزین کے اداریہ میں لکھا تھا کہ طالبان کے بارے میں میرا نقطہ نظر ہمیشہ کے لیے بدل گیا کیونکہ 1996 میں کیا ہوا تھا، میں اس کو جانتا ہوں‘‘۔
11 ستمبر 2001 کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر World Trade Centreپر حملے کے بعد صالح مرکزی تحقیقاتی ایجنسی (سی آئی اے) کے لیے ایک اہم اثاثہ بن گیا۔
سی آئی اے کے ساتھ ان کے تعلقات نے 2004 میں افغانستان کی نو تشکیل شدہ خفیہ ایجنسی نیشنل سیکورٹی ڈائریکٹوریٹ کی قیادت کی راہ ہموار کرنے میں مدد کی۔ این ڈی ایس کے سربراہ کی حیثیت سے صالح نے انٹیل کو اکٹھا کیا، جہاں وہ ثبوت لے کر آئے کہ پاکستانی فوج طالبان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تاہم 2010 میں کابل امن کانفرنسKabul peace conference پر شرمناک حملے کے بعد انہیں ڈرامائی طور پر افغانستان کے جاسوس سربراہ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس کے بعد صالح نے ٹوئٹر پر طالبان کے خلاف اپنی لڑائی کو برقرار رکھا جہاں وہ اپنے دیرینہ دشمن کے خلاف ٹویٹس کرتے رہے۔
دسمبر 2018 میں نائب صدر اشرف غنیAshraf Ghani نے صالح کو نیا وزیر داخلہ مقرر کیا۔ وہ سابق رہنما کے نائب وزیر اعظم بن گئے۔
قتل کی کوششیں:
صالح کئی بار قتل کا نشانہ بن چکے ہیں۔ 9 ستمبر 2020 کو صالح کابل میں ایک بم حملے سے زخمی ہوے، جس میں 10 افراد ہلاک ہو گئے۔ 28 جولائی 2019 کو تین عسکریت پسند کابل میں صالح کے دفتر میں داخل ہوئے جب ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس سے 20 افراد ہلاک ہو گئے۔ جبکہ صالح بچ گئے ، انھوں نے اس حملے میں کئی ساتھیوں اور دو بھتیجوں کو کھو دیا۔
دسمبر 2009 میں امریکہ میں 60 منٹ کے انٹرویو میں صالح نے کہا تھا کہ ’’یقینا وہ مجھے مارنے کی کوشش کررہے ہیں، میں نے اپنے خاندان اور اپنے دوستوں سے کہا ہے کہ وہ کسی بھی چیز کی شکایت نہ کریں ، کیونکہ میں نے ان میں سے بہت سے لوگوں کو فخر کے ساتھ قتل کرتے دیکھا ہے‘‘۔
صالح اب کہاں ہے؟
اگرچہ ان کے ٹھکانے کے بارے میں کوئی سرکاری تصدیق نہیں ملی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ کابل کے شمال مشرق میں افغانستان کی پنجشیر وادی میں پیچھے ہٹ گئے ہیں، جو اب بھی طالبان کے کنٹرول سے آزاد ہے۔
16اگست کو سوشل میڈیا پر ان کے سابق مشیر اور مشہور طالبان مخالف احمد شاہ مسعود کے بیٹے کے ساتھ ان کی تصاویر منظر عام پر آئیں۔ جس سے لگتا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف محاذ آرائی کے لیے تیار ہے۔
پڑوسی ملک پاکستان کا موقف:
افغانستان کے سیاسی رہنماؤں کے وفد کے ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم نے منگل کے روز اسلام آباد میں واضح طور پر کہا کہ پاکستان سے بڑھ کر کوئی ملک افغانستان میں امن و استحکام کا خواہشمند نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے افغانستان کے برادر عوام کے ساتھ مکمل حمایت اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے، جو پاکستان کے عوام کے ساتھ مذہب، تاریخ، جغرافیائی، ثقافتی اور بھائی چار ے کے مضبوط رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔
ترکی میڈیا کے مطابق منگل کے روز اسلام آباد میں افغانستان کے سیاسی رہنماؤں کے وفد کے ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان سے بڑھ کر کوئی ملک افغانستان میں امن و استحکام کا خواہشمند نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجود صورتحال میں افغان رہنماؤں پر انتہائی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ افغانستان کو پائیدار امن، ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے مل کر تعمیری کردار ادا کریں۔ وزیراعظم نے جامع سیاسی حل کیلئے تمام فریقوں کے مشترکہ کردار کی اہمیت پر زور دیا۔