کابل : طالبان کی جانب سے پہلا حکم جاری کردیا گیا ہے ۔ خامہ نیوز کے مطابق افغانستان کے ہیرات صوبہ میں طالبان نے سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو حکم دیا ہے کہ لڑکیوں کو اب لڑکوں کے ساتھ ایک ہی کلاس میں نہیں بیٹھنے دیا جائے گا ۔ یونیورسٹی لیکچررز، پرائیویٹ اداروں کے مالکان اور طالبان کے درمیان تین گھنٹے کی میٹنگ میں کہا گیا کہ کو ایجوکیشن کو جاری رکھنے کا کوئی متبادل اور جواز نہیں ہے اور اس کو ختم کیا جانا چاہئے ۔ افغانستان میں کوایجوکیشن اور الگ الگ کلاسوں کا مکسڈ سسٹم ہے ، جس میں الگ الگ کلاسیز چلانے والے اسکول ہیں جبکہ ملک بھر کے سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں اور اداکاروں میں کو ایجوکیشن لاگو کی جاتی ہے ۔
ہیرات صوبہ کے لیکچررز نے دلیل دی ہے کہ سرکاری یونیورسٹی اور ادارے الگ الگ تعلیم کا بندوبست کرسکتے ہیں ، لیکن پرائیویٹ اداروں میں خاتون طلبہ کی محدود تعداد کی وجہ سے الگ الگ کلاسیز کا بندوبست نہیں کرسکتے ۔ افغانستان اسلامی امارات کے اعلی تعلیم کے سربراہ ملا فرید جو ہیرات میں ہوئی میٹنگ میں طالبان کی نمائندگی کررہے تھے ، نے کہا کہ کو ایجوکیشن کو ختم کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ سماج میں سبھی برائیوں کی جڑ ہے ۔
ملا فرید نے ایک متبادل کے طورپر مشورہ دیا ہے کہ خاتون لیکچررز یا سن رسیدہ مرد جو قابل ہیں ، انہیں خاتون طلبہ کو پڑھانے کی اجازت ہے اور کوایجوکیشن کیلئے نہ تو کوئی متبادل ہے اور نہ ہی اس کا کوئی جواز ہے ۔ بتادیں کہ صوبہ میں پرائیویٹ اور سرکاری یونیورسٹیوں اور اداروں میں تقریبا 40 ہزار طلبہ اور دو ہزار لیکچررز ہیں ۔
طالبان نے خواتین نیوز اینکرز کو کام کرنے سے روکا: آئی ایف جے
ادھر انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) نے کہا کہ ریڈیو ٹیلی ویژن افغانستان (آر ٹی اے) کی خواتین اینکرز خدیجہ امین اور شبنم دوران کو طالبان کی حمایت سے بنائے گئے آر ٹی اے کے نئے ڈائریکٹر نے دھمکی دی اور کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ آئی ایف جے نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد ملک میں خوف کا ماحول ہے۔ خواتین میڈیا پرسنز کو کام کرنے کا حق حاصل ہے ، لیکن ان کا تحفظ بھی ہونا چاہیے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے۔
شبنم دوران نے ایک بیان میں کہا کہ بدقسمتی سے مجھے اپنا شناختی بیج رکھنے کے باوجود اندر نہیں جانے دیا گیا۔ مرد کارکنوں کو اجازت تھی لیکن مجھے دھمکی دی گئی۔ وہیں خدیجہ امین کو خدشہ تھا کہ 20 سال کی سماجی کامیابیاں ضائع ہو جائیں گی ، کیونکہ طالبان 2001 میں آخری بار اقتدار میں آنے کے بعد سے تبدیل نہیں ہوئے تھے۔
ماضی میں طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ خواتین کو پڑھنے اور کام کرنے کی اجازت دیں گے ، حالانکہ افغان خواتین اپنے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔