مرزا محمد ہادی رسواکے آبا و اجداد کا تعلق ایران سے تھا۔ صدیوں پہلے وہ لوگ ایران سے ہندستان آئے اور اودھ میں سکونت اختیار کی۔ مرزا محمد ہادی رسوا1857ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ انکے والد مرزا آغا محمد تقی بڑے باذوق اور تعلیم یافتہ انسان تھے۔ مرزا ہادی رسوا نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ اُنکے والد عربی، فارسی کے علاوہ علم ریاضی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ انکی تعلیم ہی کا اثر تھا کہ رسوا نے جہاں ایک طرف عربی، فارسی اور اردو میں لیاقت پیدا کی وہیں علم ریاضی، علم نجوم اور علم کیمیا میں بھی دسترس حاصل کی۔ علم و ادب سے دلچسپی خاندانی وراثت تھی۔ مرزا رسوا ابھی سولہ برس کے تھے کہ انکے والدین کا انتقال ہو گیا۔انکے والدین بڑی جائداد چھوڑ کر گئے تھے لیکن انکے ماموں کی نیت ٹھیک نہیں تھی انھوں نے تمام جائداد پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ دو چار مکانات ایسے بچے تھے جن پر مرزا ہادی اپنا تصرّف کر سکتے تھے سو انھیں مکانات کی آمدنی پر گزر بسر کرنے لگے۔ کم عمر مرزا ہادی بھلا اس کے سِوا کر بھی کیا سکتے تھے۔
مرزا محمد ہادی رسوا علم کے زویا تھے۔ پڑھنے لکھنے میں انکا دل خوب لگتا تھا۔اگرچہ لکھنؤ کا ماحول کچھ اور تھا لیکن مرزا ہادی کو لہو و لعب کا چسکا نہیں لگا اور ان کی ابتدائی زندگی صرف حصولِ علم کا ذوق پورا کرنے میں بسر ہوتی رہی۔ بچپن میں ہی شعر کہنے کا شوق دیکھ کر انکے والد نے مرزا ہادی کو مشہور مرثیہ گو شاعر مرزا سلامت علی دبیر کی خدمت میں پیش کر دیا تھا۔ لیکن مرزا ہادی کی عمر بہت کم تھی اس لئے مرزا دبیر نے انھیں اپنی شاگردی میں رکھنے کے بجائے اپنے صاحب زادے مرزا محمد جعفر اَوج کی شاگردی میں دے دیا۔ مرزا رسوا نے مرزا اَوج سے اصلاحیں ضرور لیں لیکن انکے کلام پر مرزا سلامت علی دبیر اور مرزا اَوج کا رنگ کبھی نہیں چڑھا۔مرزا رسوا کا خود اپنا ایک رنگ تھا۔ وہ غزلیں، قطعات اور رباعیاں بھی کہتے تھے۔ انکی مثنوی ’امید و بیم‘ کی ادبی حیثیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ مرزا ہادی رسوا کی اصل پہچان شاعری نہیں ہے۔ مشہور ادبی تاریخ نویس رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں۔
”مرزا رسوا فنِ شعر میں مرزا اوج مرحوم کے شاگرد ہیں۔ مرزا صاحب جوانی میں مرزا غالب کے رنگ کو بہت پسند کرتے تھے اور دیوانِ غالب ان کو قریب قریب کل حفظ تھا۔“
مرزا رسوا کو عہدِ جوانی میں غالب ضرور پسند تھے لیکن عمر کی پختگی کے ساتھ وہ مومن خاں مومن کی سادگی اور صفائی کی طرف مائل ہوئے۔ خود انکا کلام نہایت صاف، سادہ اور لطیف تخّیل سے معمور ہوتا ہے۔ شاعری کے علاوہ خوش نویسی کے فن سے بھی مرزا ہادی کو بچپن سے دلچسپی تھی۔ اس فن کے ماہر ایک شیخ صاحب نے مرزا کو خطّاطی کے اسلوب سکھائے۔ مرزا رسوا کئی زبانیں جانتے تھے، جیسے عربی، سنسکرت، ہبرو، یونانی، فارسی اور ہندی۔ ا پنے ذاتی شوق کی بنا پر انھوں نے انگریزی زبان پر بھی اچھا عبور حاصل کر لیا۔ انٹرنس کا امتحان پاس کر کے رڑکی سے اُورسیری کا امتحان بھی پاس کیا۔ اُورسیری کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھیں ریلوے میں نوکری مل گئی۔اور کویٹا (بلوچستان) میں تقرّر عمل میں آیا۔ مگر وہ کام انکے مزاج کے موافق نہ تھا۔ مرزا ہادی شیخ بو علی سینا کا ایک رسالہ علم کیمیا سے متعلق پڑھ چکے تھے۔ کویٹا میں ریلوے کی ملازمت کرتے ہوئے ہشام ابن الملک کی ایک کتاب ان کے ہاتھ لگی۔ افلاطون کی لکھی ہوئی ایک کتاب بھی کہیں سے حاصل کر کے پڑھی۔ان کتابوں کے مطالعہ کے بعد جو اصول اخذ کئے ان کو عملی شکل دینے پر طبیعت راغب ہوئی۔ یہ رغبت رفتہ رفتہ جنون کی شکل اختیار کر گئی۔ لہذا اپنے اس شوق کو پورا کرنے کے لئے ملازمت سے سبک دوشی حاصل کر لی۔ نوکری سے مستعفی ہو کر لکھنؤ واپس آ گئے۔ لکھنؤ کے محلّہ نخاس میں کرائے کا مکان لیکر رہنے لگے اور کرسچین اسکول میں تدریسی فرائض انجام دینے لگے۔ مگر اصل مشغلہ کیمیاگری تھا۔ لکھنؤ میں کئی مکانات بدلے۔ کچھ روز ازابیلا تھابرن کالج میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ ایک سونار کے لڑکے کو ٹیوشن پڑھانا بھی منظور کیا کہ سونار کے یہاں بھٹی خالی اوقات میں انھیں کیمیا کے تجربات کے لئے مل جائے۔کیمیا کے تجربات نے انھیں کئی مرتبہ مالی مشکلات میں مبتلا کر دیا۔ یہاں تک کہ مکانات کے فروخت ہونے کی باری آ گئی۔ ذاتی زندگی بھی بہت پرسکون نہ رہی۔ لکھنؤ کی زندگی اذیت ناک ہو گئی تو شہر فیض آباد کے ایک نہایت معزز گھرانے میں شادی کر کے اسی شہر میں منتقل ہو گئے۔ وہاں دو برس سے کچھ زیادہ مدّت تک قیام رہا۔ اس دوران ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی لیکن کچھ ہی عرصے بعد ماں بیٹی دونوں کا انتقال ہو گیا۔ بیوی اور بیٹی کے انتقال کے بعد رسوا بہت تنہا ہو گئے اور لکھنؤ واپس لوٹ آئے۔
ہمہ وقت پڑھنے لکھنے میں مصروف رہتے تھے۔ پڑھنا اور پڑھ کر علم حاصل کرنا ان کے لئے عین مقصدِ حیات تھا۔ مرزا رسوا دھن کے پکّے تھے۔ دولت اور شہرت کی لالچ ان میں نہ تھی۔ اصول پسند اور خوددار انسان تھے۔ کبھی کسی کے آگے انھوں نے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ اپنے کام میں مصروف ہوتے تو بڑے سے بڑے آدمی سے بھی نہیں ملتے تھے، ویسے صاف دل اور پرخلوص دوستوں سے کھل کر ملتے تھے۔کچھ زمانہ حیدر آباد میں ملازمت کی۔عثمانیہ یونی ورسٹی میں دارالترجمہ کا قیام عمل میں آیا تو مرزا ہادی رسوا بھی ملازم ہوئے۔ لیکن حیدرآباد میں کوئی ادبی شغل نہیں رہتا تھا اس لئے دل نہ لگا۔ واپس لکھنؤ لوٹ آئے۔ اردو شارٹ ہینڈ اور اردو ٹائپ رائٹنگ انھیں کے دماغ کی پیداوار ہے۔ افلاطون کی کتابوں کے ترجمے انھوں نے کئے۔ ایک یونانی ڈرامے کا بھی ترجمہ کیا، جو طلسمِ اسرارِ نوکے نام سے شائع ہوا۔ لکھنؤ میں ازابیلا تھابرن کالج کی ملازمت ختم ہونے کے بعد آمدنی کم ہو گئی تھی اور اخراجات بڑھ گئے تھے۔ اب کسب معاش کے لئے ناول نویسی اختیار کیا۔ پہلے ہی ناول ’افشائے راز‘کی اشاعت نے ناول نویسوں کی فہرست میں بھی ان کو ممتاز جگہ دلوا دی تھی۔ لکھنؤ کے مشہور ناول فروش بابو مہادیو پرشاد برابر تقاضے کرتے رہتے اور مرزا ہادی ناول پہ ناول لکھ کر دیتے رہے۔ لاتعداد ناول فرضی ناموں سے شائع ہوئے۔ جو ناول خود مرزا کے نام سے چھپے اور انکی شہرت کا باعث ہوئے انکے نام تھے ’خونی بھید‘ ’خونی جورو‘ ’بہرام کی رہائی‘ ذاتِ شریف‘،’شریف زادہ‘ اور ’امراؤ جان ادا‘۔
مرزا محمد ہادی رسوا ایک مختصر علالت کے بعد ۱۲، اکتوبر ۱۳۹۱ء کو حیدرآباد میں انتقال فرمایا اور وہیں مدفون ہوئے۔
(مضمون نگار ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو، نئی دہلی، انڈیا میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)