جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق طالب علم عمر خالد پر دہلی میں فسادات بھڑکانے کی سازش رچنے کے الزامات کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس پر غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت درج مقدمہ ایک بڑی سازش کا حصہ ہے۔ وہ تفتیش میں پولیس کے ساتھ تعاون کر رہا ہے، لہٰذا اسے ضمانت پر رہا کیا جائے۔
عمر خالد کے وکیل نے دہلی پولیس کے دعووں میں دو تضادات کی طرف اشارہ کیا۔ سب سے پہلے انہوں نے عدالت کو مہاراشٹر میں عمر خالد کی تقریر کی 21 منٹ کی ویڈیو کلپ دکھائی، جسے استغاثہ فریق نے مبینہ طور پر اشتعال انگیز قرار دیا تھا۔ اس دن عمر خالد نے مہاتما گاندھی پر مبنی اتحاد کا پیغام دیا تھا اور اسے دہشت گردی قرار دیا گیا۔ وہ جمہوری اقتدار کی بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے گاندھی جی کا ذکر کیا۔ عمر خالد کے لیے ضمانت کا مطالبہ کرتے ہوئے، وکیل نے عدالت سے کہا کہ عمر خالد کو مبینہ طور پر مہاراشٹر کے امراوتی میں خطاب کرتے ہوئے ویڈیو فوٹیج کا بی جے پی کے رکن امت مالویہ کے ایک ٹوئٹ سے لیا گیا تھا اور پھر نیوز چینلوں کے ذریعہ نشر کیا گیا تھا۔
ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کی عدالت میں ضمانت پر سماعت کے دوران ایڈوکیٹ تری دیپ پیس نے دلیل دیتے ہوئے کہ پولیس کے پاس ایڈٹ کرکے سوشل میڈیا پر ڈالی گئی عمر خالد کی تقریر کے نامکمل ویڈیو کلپ کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں ہے۔ دہلی پولیس نے عمر خالد کو شمال مغربی دہلی میں گزشتہ سال فروری میں ہوئے فسادات پر اکسانے کے معاملے میں یو اے پی اے یعنی غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ کی دفعات کے تحت ستمبر 2020 میں گرفتار کیا تھا۔
وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کے پاس ٹی وی چینلز کی جانب سے سوشل میڈیا سے لی گئی غیر مستند ویڈیو کلپس کے علاوہ کوئی ٹھوس شواہد نہیں ہیں، جو اس پر لگائے گئے الزامات کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہوں۔ تری دیپ نے کہا کہ جب پولیس نے ٹی وی چینل کی کمپنیوں سے عمر خالد کی تقریروں کی نشریاتی ویڈیو کی اصل کاپی مانگی، تو انہیں جواب دیا گیا کہ انہیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رکن نے ٹوئٹ کیا اور چینل نے اسے سوشل میڈیا سے لیا تھا۔
اپنی دلیل کی تائید میں عمر خالد کے خلاف مہاراشٹر کے امراوتی میں دی گئی، تقریر کی ویڈیو چلوا کر عدالت کے سامنے بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ویڈیو چلانے کے بعد وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ تقریر کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتی، بلکہ کہا گیا ہے کہ لوگوں کو جمہوری حقوق کے دائرے میں متحد کیا جائے اور اس میں تشدد کو ہوا دینے کی کوئی بات نہیں ہے۔ عدالت نے آئندہ سماعت کے لئے 3 ستمبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔