کابل: افغانستان(Afghanistan) پر اب طالبان(Taliban) کا قبضہ ہے، جہاں اشرف غنی(Ashraf Ghani) سمیت زیادہ تر لیڈران طالبان کے خوف سے ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ وہیں، ایک لیڈر ہیں، جو وہاں طالبان کے خلاف ابھی بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ لیڈر ہیں افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح۔ افغانستان(Afghanistan) کے کیئر ٹیکر افغانستان کے واحد بڑے لیڈر ہیں، جو کہتے ہیں کہ سینے پر گولی کھا لیں گے، لیکن سر نہیں جھکائیں گے۔
امراللہ صالح(Amrullah Saleh) ہتھیار بند جنگجوں اور احمد مسعود کے ساتھ پنجشیر میں ہیں۔ یہاں سے دونوں جنگجووں کو طالبان کے خلاف تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ اپنے جنگجووں میں جان بھرنے میں لگے ہیں اور طالبان کو ہرانے کے لیے مسلسل میٹنگیں چل رہی ہیں۔
جب امراللہ صالح سے یہ پوچھا گیا کہ کیا آپ کو امید تھی کہ افغان ریاست کا زوال اس طرح ہوگا؟ اشرف غنی کے ملک چھوڑنے کے طریقے پر آپ کی کیا رائے ہے؟ اس پر جواب دیتے ہوئے امراللہ صالح نے کہا کہ دیکھئے، مجھے نہیں لگتا کہ اس بڑی مصیبت پر سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کا یہ صحیح وقت ہے۔
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے لیے آپ کسے ذمہ دار مانتے ہیں اور کیوں؟ آپ کو کیا لگتا ہے کہ طالبان کے آنے سے افغانستان دہشت گردی کا اڈہ بنے گا؟
اس پر جواب دیتے ہوئے امر اللہ صالح نے کہا کہ اس کے کئی اسباب ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ طالبان کبھی دباو میں نہیں تھا۔ اس نے پاکستان کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا۔ پورا پاکستان طالبان کی سروس میں حاضر تھا۔ امریکہ نے بڑی قیمت دے کر پاکستان سے اسے خریدنے کی کوشش بھی کی، لیکن ناکام رہا۔ امریکہ نے جتنی ادائیگی کی، اس سے کہیں زیادہ قیمت طالبان نے پاکستان کو اس کی حمایت کے لئے دی۔ اس لئے ایٹمی طاقت والی ریاست کی دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے اور افغانستان میں مغربی معاونین کے خلاف بغاوت کا موضوع کبھی حل نہیں ہوا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ دوحہ مذاکرہ نے طالبان کو منظوری دے دی اور طالبان اپنے الفاظ کے تئیں کبھی وفادار نہیں رہا۔ انہوں نے اپنے پابند عہد ہونے کا احترام نہیں کیا اور بین الاقوامی برادری کو بے وقوف بنایا۔ دوحہ سمٹ کا مقصد بین الاقوامی برادری کو منقسم کرنا تھا، انہیں پُرامن عمل کے لئے پُرامید رکھنا تھا، جو حقیقت میں نہیں تھا، لیکن وہ فوجی طاقت پر سرمایہ کاری کر رہے تھے اور پاکستانی پورے دل سے ان کی حمایت کر رہے تھے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں افغانستان امریکی اتحادیوں کے بھاری دباو میں آیا۔ انہوں نے ہمیں بلیک میل کیا اور کہا کہ یا تو آپ قیدیوں کو رہا کردیں یا ہم آپ کے تعاون میں زبردست کٹوتی کریں گے اور اپنی فوجی مدد کم کردیں گے۔ ہم نے کہا کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ لوگ فرنٹ لائن پر نہیں پہنچیں گے اور ان کا جواب نہیں تھا، جبکہ یہ سبھی فرنٹ لائن پر پہنچ گئے تھے۔ یہ قیدیوں کی رہائی نہیں تھی۔ یہ طالبان کے شدت پسند جنگجووں کو تحفہ دینا تھا۔
چوتھی وجہ یہ ہےکہ ہماری حکومت میں لوگ تھے، جو اس صورتحال سے واقف نہیں تھے۔ وہ سب کچھ ہلکے میں لے رہے تھے۔ ہم اسے ان 4 اسباب تک محدود نہیں کرسکتے، ایسے کئی دیگر اسباب ہیں جو اس مصیبت کی وجہ بنے۔ لب ولباب یہ ہے کہ ناٹو چلا گیا، امریکی فوج چلی گئی، لیکن افغان لوگ نہیں گئے… انہیں نکالا نہیں جاسکا۔ ملک پریشانی میں ڈوب گیا ہے اور دہشت گرد گروپ نے افغانستان کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ مثال کے لئے آج ایک منی لانڈر جو القاعدہ سے ہمدردی رکھنے والوں اور طالبان کے درمیان لین دین کی سہولت فراہم کر رہا تھا، افغان سینٹرل بینک کا گورنر بن گیا ہے۔ حقانی کابل چلا رہے ہیں… یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ حقانی کون ہیں۔ یہ شرم اور دھوکہ ہے۔ میں اس شرم اور دھوکے کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ ہم تب تک لڑیں گے، جب تک دشمن یقین نہیں کرلیتا اور اس حل پرنہیں پہنچ جاتا کہ افغانستان کو افغانستان بنا رہنا چاہئے۔ اسے طالبان نہیں بننا چاہیے۔