لندن: پاکستانی ہائی کمیشن اور پاکستانی نژاد اراکین پارلیمان کی کئی ہفتوں کی لابنگ کے باوجود برطانوی حکومت کے سفری جائزے میں پاکستان کے لیے کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہ ریڈ لسٹ میں برقرار ہے۔ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانوی حکومت کا فیصلہ پاکستان سے آنے والے مسافروں کے لئے دھچکا ثابت ہوگا، جنہیں برطانیہ آنے پر ہوٹل میں 10 روز لازمی کوارنٹائن کرنا ہوگا، جس کی لاگت 2 ہزار 250 پاؤنڈز ہے۔
مانچسٹر گورٹن شیڈو کے لیبر رکن پارلیمنٹ اور ہاؤس آف کامنزکے ڈپٹی لیڈر افضل خان نے ایک ٹوئٹ میں ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کو ریڈ لسٹ میں برقرار رکھنے کے حکومتی فیصلے سے سخت مایوسی ہوئی'۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ’ایسے میں کہ جب افغانستان میں بحران جاری ہے، پاکستان اہم انسانی امداد پہنچانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، اس فیصلے سے کئی لوگ پریشان ہوں گے اور انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا‘۔
ٹوئٹ میں افضل خان نے پارلیمانی سکریٹری آف اسٹیٹ برائے ٹرانسپورٹ، رکن پارلیمان رابرٹ کورٹس کی جانب سے انہیں بھیجا گیا خط بھی شیئر کیا، جنہوں نے گزشتہ سفری جائزے کے دوران پاکستان کو ریڈ لسٹ میں رکھنے کے حکومتی فیصلے کے بارے میں افضل خان کو جوابی خط لکھا تھا۔
رابرٹ کورٹس نے کہا کہ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ پاکستان کے ریڈ لسٹ میں رہنے کے فیصلے کا لوگوں پر کیا اثر پڑے گا۔ تاہم یہ درست ہے کہ حکومت، برطانیہ میں درآمد ہونے والے کووڈ-19 کے نئے سلسلے کے خطرے کو کم کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ برطانیہ میں ویکسین پروگرام کے لئے انتہائی اہم وقت میں کووڈ- 19 کی نئی اقسام سے بچنے کے لئے کیا گیا۔
خط میں برطانوی رکن پارلیمنٹ نے مزید کہا کہ تشویشناک اقسام وسیع پیمانے پر نگرانی کے طریقہ کار مثلاً جینومک نگرانی کے ذریعے شناخت کی جاتی ہیں، لیکن پاکستان میں اس کی صلاحیت اور گنجائش محدود ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ برطانوی اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ایک بڑی تعداد میں مسافر پاکستان سے ہر ہفتے برطانیہ آتے ہیں جس میں کووڈ 19 سے متاثرہ افراد کی شرح خاصی بلند ہے جبکہ ان میں تشویشناک اقسام سے متاثرہ افراد بھی شامل ہیں۔
خط میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کے ریڈ لسٹ سے اخراج کے لیے وزرا کو مطمئن ہونا پڑے گا کہ برطانیہ میں وائرس کی آنے والی تشویشناک اقسام کا خطرہ کم ہوگیا ہے۔ دوسری جانب ایک ٹوئٹ میں پاکستانی ہائی کمیشن نے کہا ہے کہ پاکستان کو ریڈ لسٹ میں برقرار رکھنے کے فیصلے سے مایوسی ہوئی، جس کا مطلب ہزاروں پاکستانیوں اور برطانوی شہریوں کے لیے مسلسل مشکلات ہیں۔