نائب صدر جمہوریہ جناب ایم وینکیا نائیڈو نے آج کہا کہ ادب مشکل ادوار میں امید و آسرے پر نئے تجربات کے لئے راستے کھولتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ادبی صحیفے مقامات، واقعات اور تجربات پیدا کرتے ہوئے ایک ایسی طلسماتی دنیا پیدا کرتے ہیں جس میں ہم کھو جاتے ہیں۔‘‘
’ٹائمز ادبی میلے‘ سے خطاب کرتے ہوئے، نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ وہ ادب ہی ہے جو بحران کے دور میں ازحد موزوں سوالات کھڑے کرتا ہے اور پھر ان کے مناسب حل پیش کرتا ہے۔ مشہور ادیب حضرات، اختراعی قلم کاروں، اخلاق پرستوں، رہنما حضرات اور فلسفیوں کی شکل میں اپنے کام کے ذریعہ مختلف طریقوں سے ہمارے تخیل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ عظیم تخلیقات ہم تک اس انداز میں پہنچتی ہیں کہ کوئی دیگر چیز نہیں پہنچ سکتی، انہوں نے کہا کہ، ’’ہم الفاظ کی دنیا میں اس طرح کھو جاتے ہیں کہ زمان و مکاں کی حدود سے آگے نکل جاتے ہیں۔ عظیم تخلیقات کے مطالعے کے لئے کسی مخصوص وقت کے انتظار کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘
جناب نائیڈو نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ادب مختلف شکلوں میں اندرونی طور پر بھی متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ادب ہمارے شعور کو سنوارتا ہے اور ہمیں مزید بہتر انسان بننے میں مدد کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’زندگی کے مختلف مراحل میں، مختلف قلم کاروں اور مضامین نے ہمیں متاثر کیا ہے۔ ادب ایسی گوناگونیت کا حامل ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو وقت کے مختلف لمحات میں کچھ ایسی چیز فراہم کرتا ہے جسے ہم خود سے منسوب کر سکتے ہیں۔‘‘
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ بھارت زمانہ قدیم سے علم اور حکمت کا خزینہ ہے، انہوں کہا کہ، ’’ادب وہ مشہور پالنا ہے جس میں ثقافت پروان چڑھتی ہے جس نے دنیا کو وید، فلسفے کا بیش قیمتی خزانہ جس میں اپنشد اور بھگوت گیتا شامل ہیں ، راماین اور مہابھارت جیسے لافانی رزمیے، پنچ تنتر، ہتوپدیش جیسے حکمت سے پر افسانے اور ڈرامہ سمیت کالی داس کے شاندار ادبی صحیفے دیے ہیں۔‘‘
اس بات کا مشاہدہ کرتے ہوئے کہ پرانے دور سے لے کر موجودہ دور تک، ہماری تمام تر زبانوں، تمام تر خطوں میں روایت کا اٹوٹ دھاگہ تلاش کیا جا سکتا ہے، نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ آج بھارت میں ہر ایک زبان کی رگوں میں مختلف شکلوں میں متحرک ادبی سرگرمیاں دوڑ رہی ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’شاید، دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جو اپنے یہاں اتنے مالامال، متنوع، ثقافتی، لسانی اور ادبی ورثہ ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہو۔‘‘
جناب نائیڈو نے کہا کہ گذشتہ 17 مہینوں میں سرگرمیوں کو ڈجیٹل شکل دینے کی رفتار میں تیزی لانا امید کی ایک کرن ثابت ہوئی ہے۔ اس نے چیزوں تک رسائی میں حائل بندشوں کو اس طرح ختم کیا ہے کہ کوئی دوسری چیز ایسا نہیں کر سکتی تھی، اور بلاشبہ یہ پریشانی کے دور میں انسانی خلاقیت کا ایک مظہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی تخیل نہ صرف یہ کہ غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کے لئے راستے تلاشنے میں اہل ہے بلکہ مصیبت کو موقع میں تبدیل کرنے کی بھی اہلیت رکھتا ہے۔
اس تقریب کے انعقاد کے لئے ٹائمز آف انڈیا کی ستائش کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، ’’مجھے بتایا گیا ہے کہ ٹائمز ادبی میلے کی اہم خصوصیت کتابوں کے شوقین حضرات اور مصنفین کے درمیان مکالمہ ہوتا ہے۔‘‘انہوں نے اپنی خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ادبی میلہ میں داخلے کی کوئی بندش نہیں ہے اور اس کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ، ’’ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہی اس کی شاندار کامیابی کی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔‘‘
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ، ’’مجھے پورا یقین ہے کہ ادبی میلہ ایک مرتبہ پھر مختلف خیالات اور متنوع نظریات کے تبادلے کے لئے ایک صحت مند پلیٹ فارم کے طور پر ابھرے گا۔‘‘
ٹائمز آف انڈیا کے اگزیکیوٹیو ایڈیٹر جناب وکاس سنگھ ، بروک فیلڈ پروپرٹیز کے اگزیکیوٹیو نائب صدر جناب شانتنو چکرورتی، فیسٹیول ڈائرکٹر محترمہ ونیتا داورے ننجیا، ڈی ایس گروپ کے ڈائرکٹر جناب پویش کمار گپتا اور دیگر حضرات نے اس تقریب میں شرکت کی۔