Urdu News

معیاری تعلیم: سر سید سے پروفیسر عین الحسن تک

مشکل ترین حالات میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی خوش قسمتی سے پروفیسر سید عین الحسن کو وائس چانسلر کی ذمہ داری دی گئی ہے۔

   معیاری تعلیم: سر سید سے پروفیسر عین الحسن تک   

ڈاکٹر شفیع ایوب 
ہمارے معاشرے میں تعلیمی بے داری کی باتیں بھی اکثر سنائی دیتی ہیں۔ یہ اچھی بات ہے۔ 1857کے انقلاب کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی جو دُرگت ہوئی وہ تاریخ کا ایک مکمل باب ہے۔ قوم پوری طرح بے یار و مددگار تھی۔ مایوسی کے بادل ہر طرف چھائے ہوئے تھے۔ ایسے میں ایک مرد باکمال قوم کی نجات کا ایک فارمولہ لئے سامنے آئے جنھیں دنیا سر سید احمد خاں کے نام سے جانتی ہے۔سر سید نے انقلاب 1857کی تباہیوں کے صرف سات سال بعد سائنٹفک سوسائیٹی 1864میں قائم کی۔ انھوں نے انگلینڈ کا سفر کیا تاکہ اس قوم کی سربلندی کے اسباب معلوم کر سکیں۔ سر سید نے ”تہذیب الاخلاق“ جیسا ادبی اصلاحی رسالہ نکالا۔ علی گڑھ میں محمڈن اورینٹل کالج قائم کیا، جس نے بعد میں یونیورسٹی کی شکل اختیار کی۔ ذرا تصور کیجئے کہ سر سید نے علی گڑھ میں مسلم یونیورسٹی قائم نہ کی ہوتی تو اس ملک میں مسلمانوں کا تعلیمی سرمایہ کیا ہوتا؟  اب تعلیمی اداروں کی تعداد بتانے سے کام نہیں چلنے والا ہے۔ کمپٹیشن کا زمانہ ہے۔ دنیا سے مقابلہ کرنا ہے۔ معیاری تعلیمی ادارہ نہیں ہوگا تو ان ڈگریوں کو کوڑی کے مول نہیں ملنے والے۔   
انقلاب 1857کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی میں ایک اور انقلاب آیا 1947میں۔ مسلسل جدوجہد کے بعد آزادی ملی لیکن خون میں نہائی ہوئی آزادی۔ آزادی کے ساتھ تقسیم وطن کا سانحہ بھی پیش آیا۔ لاکھوں لوگ بے گھر، بے در ہوئے، بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ 1947کے فسادات ذرا کم ہوئے تو قوم کے رہنماؤں کو ایک بار پھر یہ خیال آیا کہ ایک نئے عزم کے ساتھ نئے سفر کی شروعات کی جائے۔ ایک بار پھر رہبرانِ قوم و ملت نے تعلیم کا نعرہ بلند کیا۔ ایک بار پھر قوم نے مسیحائے قوم سر سید احمد خاں کو یاد کیا۔ہندوستان میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی راہیں تلاش کی جانے لگیں۔ دانشوران قوم نے ایک زبان ہو کر کہا کہ نجات کی راہ ہے تعلیم، تعلیم اور تعلیم۔ بار بار کہا گیا کہ تعلیمی ادارے قائم کیجئے، اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیجئے۔ اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم، جدید انگریزی تعلیم دیجئے۔ اس معاملے میں علمائے کرام نے بھی خاصی دلچسپی لی۔   
مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی قوم کا ایک خواب تھا جو 1998میں پورا ہوا۔ حیدرآباد کے گچی باؤلی میں روایتی، اقامتی اور فاصلاتی نظام تعلیم کا ایک شاندار مرکز قائم ہوا۔ لیکن گزشتہ برسوں میں کچھ ناآقبت اندیش ہاتھوں میں اس کی قیادت رہی جس کے سبب اس شاندار اقلیتی ادارے کی پہچان جامعہ اُردو، علی گڑھ جیسی بن گئی تھی۔ خوش قسمتی سے ڈاکٹر اسلم پرویز جیسے سائنٹفک ذہن رکھنے والے، ملک و ملت کے بہی خواہ کے ہاتھوں میں اس یونیورسٹی کی باگ ڈور جب آ ئی تو حالات یقینا کچھ بہتر ہوئے۔ ڈاکٹر اسلم پرویز نے اپنی حکمت عملی سے نہ صرف اس ادارے کو برباد ہونے سے بچا لیا بلکہ اپنی دور اندیشی اور ذہانت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اس کے وقار میں اضافہ کیا۔ کچھ لوگ ڈاکٹر اسلم پرویز کو جانشین سر سید کہتے ہیں، اور بجا کہتے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم پرویز سائنسداں ہیں اور سائنسی ذہن رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ دلِ درد مند کو قرانی آیات سے منور رکھتے ہیں۔ وہ قران کو ہماری طرح تاقوں میں سجانے کے بجانے قران کی تعلیمات کو زندگی میں اُتارا ہے۔ قران کو اپنی عملی زندگی میں برتا ہے۔ قران کے آفاقی پیغام کو خود سمجھا ہے اور حتی المقدور دنیا کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ کوشش بدستور جاری ہے۔ وہ سائنس کے طالب علم رہے، پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی کے ذاکر حسین دہلی کالج میں سائنس کی تدریس سے وابستہ رہے۔ ذاکر حسین دہلی کالج کے بے حد فعال پرنسپل کی حیثیت سے انھوں نے کالج میں معیاری تعلیم کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اُردو میں سائنسی ادب کو عام کرنے کے لئے گزشتہ پچیس برسوں سے اُردو ماہنامہ ”سائنس“ نکال رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم پرویز نہ صرف تعلیم کی ضرورت پر زور دیتے ہیں بلکہ معیاری تعلیم کی وکالت کرتے ہیں۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے، وہ دنیا کے مختلف ممالک کا تعلیمی دورہ کر چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ آدھی ادھوری جانکاری کے ساتھ حاصل کی گئی ڈگری کا آج کے زمانے میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ ڈگری کے ساتھ آپ کی علمی قابلیت بھی اعلیٰ درجے کی ہونی چاہئے۔ پھر آپ تعصب کا رونا نہیں روتے پھریں گے۔ 
اب کورونا کی وبا کے بعد مشکل ترین حالات میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی خوش قسمتی سے پروفیسر سید عین الحسن کو وائس چانسلر کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ پروفیسر شمیم جیراجپوری مانو کے فاؤنڈر وائس چانسلر تھے۔ ان کے بعد پروفیسر پٹھان مانو کے وائس چانسلر بنے۔ پروفیسر پٹھان کے بعد پروفیسر محمد میاں جب مانو کے وائس چانسلر بنے تو راقم السطور نے بھی انھیں مبارکباد پیش کی لیکن پروفسیر محمد میاں کسی کی امیدوں پر کھرے نہیں اترے۔ انھوں نے مانو سے وابستہ زیادہ تر افراد کو مایوس کیا۔ راقم السطور نے دیکھا ہے کہ ان کے زمانے میں یونیورسٹی ہر اعتبار سے تنزل کا شکار ہوئی۔ ہر شعبے میں معیار کی گراوٹ محسوس کی گئی۔ لیکن جب ڈاکٹر اسلم پرویز وائس چانسلر بن کر مانو پہنچے تو حالات بہتر ہوئے۔ اور اب ایک بار پھر ایک کشادہ ذہن، عالم بے مثال اور دانشمند ایڈ منسٹریٹر پروفیسر سید عین الحسن کے ہاتھوں میں مانو کی کمان ہے۔ تمام بہی خوان ملک و ملت پروفیسر سید عین الحسن کے وائس چانسلر بننے سے خوش اور مطمعن نظر آ رہے ہیں۔ پروفیسر سید عین الحسن فارسی زبان و ادب کے عالمی شہرت یافتہ اسکالر ہیں۔ درجنوں بہترین کتابوں کے مصنف ہیں۔ اردو، ہندی، انگریزی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) نئی دہلی میں چیرپرسن اور ڈین جیسے کئی اہم عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ دہلی سے تہران تک اپنی دانشوری اور علمی لیاقت کے لئے جانے جاتے ہیں۔ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کی بہترین مثال ہیں۔ پروفیسر سید عین الحسن نہ صرف ایک بلند پایہ ادیب، شاعر اور دانشور ہیں بلکہ نصابی معاملات کے بھی ایکسپرٹ ہیں۔ وہ ایک اچھے، قابل اور مقبول استاد رہے ہیں۔ ملک و ملت کا درد اپنے سینے میں رکھتے ہیں۔ ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ ایسی امید ہے کہ وہ نہ صرف تعلیم کے فروغ کے لئے بلکہ معیاری تعلیم کو عام کرنے کے لئے بھی یاد کئے جائیں گے۔   
بات یہ ہے کہ آج ہندوستان میں اقلیتی سماج نے تعلیم کی ضرورت کو تسلیم کر لیا ہے۔ ملک کی آزادی کے فوراً بعد قوم کو تعلیم کی اہمیت سمجھانے کی ضرورت تھی۔ ہمارے اکابرین نے قوم کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ان میں علمائے کرام اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغین کا بہت اہم رول تھا۔ علیگ برادری نے مختلف میدانوں سے آواز بلند کی۔ جو جہاں تھا، وہیں سے ایک صدائے درد دل سنا رہا تھا۔ بار بار کہنے،سننے،  لکھنے اور پڑھنے سے قوم کو کسی حد تک یہ بات سمجھ میں آئی کہ تعلیم کے حصول سے ہی کامیابی اور کامرانی کے دروازے کھلیں گے۔ بیس پچیس سال کی مسلسل کاوشوں سے ہم نے اسکول اور کالج قائم کئے۔ لیکن زیادہ تر اقلیتی تعلیمی ادارے معیاری نہیں ہیں۔ آج بھی یہی صورت حال ہے۔ راقم السطور ہوا میں باتیں کرنے کا عادی نہیں ہے۔ ہم نے اپنی ذاتی کوششوں سے اقلیتی تعلیمی اداروں کا دورہ کیا۔ ان اقلیتی تعلیمی اداروں کے سربراہان سے گفتگو کی۔ اور اس نتیجے پر پہنچا کہ زیادہ تر سربراہان یہ مان چکے ہیں کہ اس سے بہتر تعلیمی نظام قائم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے ان میں سے زیادہ تر خود اپنے بچوں کو کسی عیسائی مشنری اسکول یا آر ایس ایس کے کسی اسکول میں داخلہ دلاتے ہیں۔ اب یہیں سے ہمیں ایک نئے مشن کی شروعات کرنی ہے۔ ہمارے پاس ملک بھر میں تعلیمی ادارے ہیں۔ انفرا اسٹرکچر موجود ہے۔ بس ایک ذہن پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ تعلیم اور معیاری تعلیم میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ملک بھر میں ہزاروں ماہرین تعلیم موجود ہیں۔ ان میں ایک محترم نام پروفیسر سید عین الحسن کا بھی ہے۔ آپ پروفیسر سید عین الحسن کی قصیدہ خوانی نہ کریں۔ انھیں جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ اپنی تعریف سے خوش نہیں ہوتے۔ دراصل وہ اپنے کام میں، اپنے مشن میں اس قدر مصروف ہیں کہ وہ ہماری تعریف اور تنقید دونوں سے بے نیاز ہیں۔ بس اگر آپ چاہتے ہیں کہ اب ہم تعلیم سے معیاری تعلیم کی طرف جلد از جلد اپنا سفر شروع کر سکیں تو پروفیسر سید عین الحسن جیسے بے لوث خادم ملک و ملت کے کام کرنے کے طریقے سے کچھ سیکھ لیں۔ اب وقت آگیا ہے، معیاری تعلیم کا نعرہ بلند کیجئے۔  اسے اپنی زندگی کا مشن بنا یئے۔ جو جہاں ہے وہیں سے، اپنی سطح پر کام شروع کرے۔ لکھنا شروع کیجئے، بولنا شروع کیجئے۔قوم کے بچوں کے لئے معیاری تعلیم کا آغاز کیجئے، نتیجہ کم سے کم ایک دہائی بعد نظر آئے گا۔   
 
  (کالم نگار ڈاکٹر شفیع ایوب،ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جے این یو، نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)     


Recommended