نئی دہلی ، 2 ستمبر
سپریم کورٹ نے ریگولیٹری میکانزم کے فقدان میں ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے ’فیک نیوز‘ کی اشاعت اور نشر یات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جمعرات کو مانا کہ تبلیغی جماعت معاملے میں میڈیا کے ایک طبقے نے خبروں کو فرقہ وارانہ رنگ دیاتھا ، جس سے ملک کی شبیہ خراب ہوتی ہے۔
چیف جسٹس این وی رمن کی سربراہی میں ایک ڈویژن بینچ نے کہا کہ بغیر کسی جوابدہی کے ویب پورٹل پر مواد پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی نشر کر رہے ہیں۔ اس ملک میں ہر چیز کو فرقہ وارانہ زاویے سے دکھایا جاتاہے۔
بنچ نظام الدین مرکز کے تبلیغی جماعت واقعہ کے دوران فرضی اور اور بدنیتی پر مبنی خبروں کے خلاف علماء ہند اور پیس پارٹی کی عرضی پر سماعت کر رہی تھی۔
بنچ نے کہا کہ یہ ویب پورٹل اداروں کے خلاف بہت برا لکھتے ہیں۔ عام آدمی کی بات تو چھوڑ دی جائے، ججوں کو بھی یہ نہیں بخشتے۔
جسٹس رمن نے کہا کہ ایسے نام نہاد میڈیا ادارے وی آئی پیز کی آواز سنتے ہیں۔
عدالت نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ کیا اس سے نمٹنے کا کوئی طریقہ کار ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ مرکزی حکومت کے پاس پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے ایک ریگولیٹر ہے ، لیکن ویب پورٹل کے لیے کچھ نہیں ہے اور حکومت کو اس کا حل تلاش کرنا ہو گا۔
حکومت کی جانب سے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا پیش ہوئے ، جنہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس میڈیا کے تقریباً حصوں پر پابندی لگانے کے لیے قانون موجود ہے۔گزشتہ سماعت کے دوران ، عدالت نے اشتعال انگیز ٹی وی پروگراموں پر روک نہ لگانے کے تعلق سے مرکز کی جم کر سرزنش کی تھی۔