ایسا لگتا ہے کہ کانگریس پارٹی مرکزی اور ریاستی سیاست کی کشمکش میں پھنس گئی ہے۔ مغربی بنگال میں 30 ستمبر کو ضمنی الیکشن ہے۔ ممتا بنرجی بھوانی پور سے الیکشن لڑیں گی ۔ وزیراعلیٰ کی کرسی پر رہنے کے لیے ان کو یہاں سے کسی بھی قیمت پر الیکشن جیتنا ہوگا۔ سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ یہ نشست جیتنا ممتا کے لیے مشکل چیلنج نہیں ہوگا ۔ ممتا کو یہاں سے اپنی جیت کا یقین ہے ، لیکن کانگریس کی کشمکش بڑھ گئی ہے۔ کانگریس بھوانی پور میں ممتا کے خلاف اپنا امیدوار کھڑا کرنے کے حوالے سے تذبذب میں ہے۔ اگر پارٹی امیدوار کھڑے کرتی ہے تو انہیں 2024 کے انتخابات میں ٹی ایم سی کی حمایت حاصل نہیں ہوگی۔ اور اگر وہ ان کے خلاف کسی کو میدان میں نہیں لاتی ہے ، تو بنگال میں کانگریس کے کارکنان مایوس ہو سکتے ہیں ۔
ذرائع نے بتایا کہ کانگریس کے سینئر لیڈران دو وجوہات کی بنیاد پر ممتا بنرجی کے خلاف امیدوار کھڑا کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔ پہلا یہ کہ کانگریس اور ٹی ایم سی کے درمیان دوستی ان دنوں بڑھ رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں ممتا بنرجی نے سونیا گاندھی سے ملاقات کی تھی ۔ ان ملاقاتوں میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ اگر بی جے پی کو شکست دینی ہے تو اپوزیشن کو ایک ساتھ آنے اور ذاتی اختلافات کو بھولنے کی ضرورت ہے ۔
حال ہی میں جب سشمیتا دیب نے کانگریس چھوڑ کر ٹی ایم سی میں شمولیت اختیار کی تو ان کی الوداعی کے دوران بھی ماحول کافی پرسکون تھا ۔ دونوں کیمپوں سے کوئی بیان بازی نہیں ہوئی ۔ ممتا بنرجی نے اپنے ٹی ایم سی ساتھیوں سے کہا کہ سونیا گاندھی کے خلاف کوئی برا لفظ استعمال نہیں کیا جانا چاہیے اور یہ بات واضح تھی کیونکہ سشمیتا نے اپنے تمام انٹرویوز اور پریس کانفرنسوں میں گاندھی خاندان پر نشانہ سادھنے سے انکار کر دیا تھا ۔ انہوں نے یہ بھی یقینی بنایا کہ وہ مستقبل کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے ٹی ایم سی اور کانگریس کے درمیان ایک پل کا کام کر سکتی ہیں ۔
کولکتہ کے ایک کانگریس لیڈر نے کہا کہ کیا سبھی اپوزیشن اتحاد '' مریادا '' پر عمل صرف ہمیں کرنا چاہیے؟ ابھیجیت مکھرجی اور سشمیتا کو ماننے کی کیا ضرورت تھی؟ ٹی ایم سی دیگر کانگریس لیڈروں کی فہرست کیوں مانگ رہی ہے ، جنہیں وہ شامل کرسکتی ہے ؟
اس سال اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے بائیں بازو کے ساتھ اتحاد کیا تھا ۔ اس کے باوجود اس کی کارکردگی ناقص رہی ۔ پارٹی نے ایک بھی نشست نہیں جیتی ۔ اس کے بعد ریاستی قیادت کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ ریاست کے انچارج جیتن پرساد نے نتائج آنے کے کچھ دنوں بعد بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ جانے سے پہلے پرساد نے کہا کہ انتخابات کے دوران ٹی ایم سی کے ساتھ پارٹی کے الجھے ہوئے رخ نے اس کے بنیادی ووٹروں کو بھی الجھا دیا۔ انہوں نے ریاستی صدر ادھیر رنجن چودھری کی درخواست پر بائیں بازو کی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے ’غلط اندازہ‘ قرار دیا۔
ریاستی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ خراب کارکردگی اور ٹی ایم سی کے توسیعی منصوبوں کو دیکھتے ہوئے علامتی لڑائی نہ لڑنے سے ریاستی کیڈر کی مزید حوصلہ شکنی ہوگی ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ مرکزی قیادت نے الیکشن لڑنے یا نہ لڑنے کو لے کر فیصلہ کرلیا ہے ۔ کانگریس کو لگتا ہے کہ اس لڑائی سے زیادہ اہم 2024 میں بی جے پی کے خلاف بڑی لڑائی لڑنا ہے ۔ ماضی میں کئی پارٹیوں نے بھی ایسا کیا ہے۔ مثال کے طور پر سماجوادی پارٹی نے کبھی کسی کو راہل گاندھی یا سونیا گاندھی کے خلاف کھڑا کرنے کی زحمت نہیں کی ۔