غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام اردو، فارسی اور موسیقی کلاسز کے مشترکہ اجلاس میں پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے ’اردو، فارسی کی مشترکہ تہذیبی روایت‘ کے موضوع پر خصوصی لکچر پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بے حد خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے آن لائن کلاسز کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ کافی مقبول ہوا ہے۔ وبا کے دنوں میں لوگ اپنے گھروں سے کم نکل رہے ہیں اور یہ ایک اچھا موقع ہے کہ ہم کسی ایسی زبان سے واقفیت حاصل کریں جو ہمیں نہیں آتی۔ ہندستانی تہذیب دنیا کی عظیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔
اس کی عظمت کا راز یہ ہے کہ اس میں دنیا کی کئی بڑی تہذیبی روایات شامل ہیں۔ فارسی زبان و ادب اور تہذیب کا راست اثر ہندستانی کلچر پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال تاج محل بھی ہے۔ اردو شاعری کی بیشتر اصناف فارسی کے وسیلے سے ہی آئی ہیں اور ہندستان آنے کے بعد یہاں کے کا مقامی رنگ جب ان میں شامل ہوا تو ان کی خوبصورتی میں چار چاند لگ گئے۔ اردو غزل کی زیادہ تر لفظیات فارسی ادب سے ماخوذ ہیں لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ وہ ادب کبھی باقی نہیں رہ سکتا جس کا اپنی زمین، ماحول اور روایت سے کوئی رشتہ نہ ہو۔
اردو نے فارسی شاعری سے استفادہ ضرور کیا لیکن پہلے فارسی ادب کو ہندستانی تہذیب سے جوڑا اس کے بعد اس سے تخلیقی رشتہ قائم کیا۔ تعارفی کلمات ادا کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ گذشتہ 5 جولائی سے آن لائن کلاسز کا سلسلہ جاری ہے۔ اس میں دنیا کے مختلف گوشوں سے طلبا حصہ لے رہے ہیں۔
ہمیں خوشی ہے کہ چند ماہ میں انھوں نے خاصی واقفیت حاصل کر لی ہے۔ ہم نے ان کلاسز کو اس طرح مرتب کیا ہے کہ ہر ماہ کسی علمی یا ثقافتی موضوع پر ایک پروگرام منعقد کرتے ہیں جس میں کسی ممتاز شخصیت کے افکار یا فن سے استفادے کا موقع ملتا ہے۔ آج کے لکچر کے لیے ہم نے پروفیسر خواجہ اکرام الدین صاحب سے گزارش کی جو اردو فارسی زبان و ادب سے گہری واقفیت رکھتے ہیں اور تدریس کا لمباتجربہ رکھتے ہیں۔ ان کی گفتگو یقیناً طلبا کے لیے مفید اور کارآمد ثابت ہوگی۔ اس آن لائن لکچر کو زوم ایپ پر نشر کیا گیا اور لوگوں نے کمنٹ کے ذریعے اپنی پسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔