واشنگٹن،19ستمبر(انڈیا نیرٹیو)
پچھلے سال 27 نومبر کو ایران کے دارالحکومت تہران کے علاقے دماوند کے ابسرد شہر میں ہونے والے ایک قاتلانہ حملے کے بعد ایران کا چوٹی کا جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ ہلاک ہوگیا۔ اس واقعے نے ایران کو سخت مشتعل کیا کیونکہ فخری زادہ اس کا اہم اثاثہ تھا جس نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو یہاں تک لانے میں کلیدی کردا ادا کیا تھا۔فخری زادہ کے قتل کے بعد آج تک اس آپریشن کی تفصیلات، اس میں حصہ لینے والے عناصر اور رد عمل کے بارے میں بہت سی کہانیاں سامنے آتی رہی ہیں۔کئی مہینے گزرنے کے بعد فخری زادہ کی قاتلانہ حملے میں ہلاکت کا معاملہ ایک بار پھر امریکی اخبار "نیو یارک ٹائمز" میں ایک بار پھر سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی ایجنٹوں نے برسوں سے سب سے بڑے ایرانی ایٹمی سائنسدان کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی مگر انہیں مقامی سطح پر ایجنٹ نہ ملنے کے باعث وہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔
اس کے علاوہ ایران نے اپنے جوہری سائنسدان کو بچانے کے لیے اسے طول عرصے تک نظروں سے اوجھل رکھا تاکہ اس کی شکل سے واقفیت نہ رہے۔ ایران کا یہ منصوبہ کسی حد تک کامیاب رہا کیونکہ فخری زادہ کیقتل کے بعد بھی بہت کم لوگ انہیں پہنچان پائے تھے مگر قاتل ان تک پہنچنے اور انہیں ٹھکانے لگانے میں کامیاب رہے۔نئی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ فخری زادہ قتل کے دن صبح صبح گرمیوں کے دن گذارنے کے لیے اپنے دیہی گھر کی طرف اپنی بیوی کے ہمراہ اپنی کار پر نکلا۔ انہیں ابسرد جانا تھا۔ ابسرد مشرقی تہران میں ایک پرفضا مقام ہے۔ دونوں نے یہاں پر اختتام ہفتہ کی تعطیلات گذارنا تھیں۔اگرچہ ایرانی انٹیلی جنس سروس نے فخری زادہ کو ان کے خلاف قتل کی سازش کے بارے میں خبردار کیا تھا لیکن جوہری سائنسدان نے اس کی بات نہیں سنی بلکہ اس کی مکمل تردید کی اور اپنے معمولات زدندگی جاری رکھے۔
امریکی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو یقین تھا کہ مقتول سائنسدان ایٹمی بم بنانے کی ایران کی کوششوں کی قیادت کر رہا تھا۔ اسی وجہ سے اس نے 14 سال قبل اسے قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔جبکہ فخری زادہ ایرانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں اپنی نمایاں پوزیشن کے باوجود ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ وہ اپنی حفاظتی ٹیم کے مشورے کے باوجود اکثر حفاظتی پروٹوکول کو توڑتے ہوئے گارڈز کی بجائے اپنی نجی گاڑی چلایا کرتا۔قتل کے دن وہ اپنی کالی نسان ٹینا سیڈان چلا رہا تھا اور اس کی بیوی اس کے ساتھ والی نشست پر تھی۔
معلومات کے مطابق غیر ملکی خفیہ ایجنسی "موساد" کی نمائندگی کرنے والی اسرائیلی حکومت نے 2004 سے ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے کام جاری رکھا ہوا ہے۔ اسرائیل نے ایرانی جوہری ایندھن کی افزودگی کی تنصیبات میں خلاف تخریب کاری اور سائبر حملوں کی مہمات چلائیں۔
امریکی اخبار نے خبر دی ہے کہ اسرائیل منظم طریقے سے ان ماہرین کا انتخاب کر رہا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایران کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کی قیادت کر رہے ہیں۔سنہ 2007 میں اس کے ایجنٹوں نے 5 ایرانی ایٹمی سائنسدانوں کو قتل اور ایک کو زخمی کیا۔ ہلاک ہونے والوں میں سے بیشتر نے فخری زادہ کے ساتھ براہ راست کام کر رہے تھے۔اسرائیلی انٹیلی جنس حکام نے کہا تھا کہ فخری زادہ جوہری وار ہیڈ بنانے کے ایک خفیہ پروگرام کو لیڈ کررہے تھے۔اسرائیلی ایجنٹوں نے میزائل تیار کرنے کے ذمہ دار ایرانی جنرل اور اس کی ٹیم کے 16 ارکان کو بھی قتل کیا۔دو سال بعد 2009 میں جب ایک اسرائیلی قاتل ٹیم تہران میں منصوبہ بند مقام پر فخری زادہ کا انتظار کر رہی تھی اسرائیل نے آخری لمحات میں آپریشن ختم کر دیا کیونکہ موساد کو شبہ تھا کہ سازش ہیک ہو چکی ہے اور ایران نے ایجنٹوں کو گھات لگا کر پکڑنے کا پروگرام بنالیا تھا۔
دریں اثنا ایرانی پاسداران انقلاب سے وابستہ ایک چینل نے سوشل میڈیا پر اطلاع دی کہ فخری زادہ کے محافظوں اور حملہ آوروں کے درمیان فائرنگ کا بھی تبادلہ ہوا۔ اس طرح رپورٹیں حادثے کے کچھ دن بعد بھی آتی رہیں۔
یہاں تک کہ کئی ایرانی خبر رساں ایجنسیوں نے اطلاع دی کہ قاتل ایک روبوٹ تھا۔ یہ کہ سارا آپریشن ریموٹ کنٹرول سے کیا گیا تھا لیکن روبوٹ کے ذریعے قتل کی بات ایرانی عوامی حلقوں میں مذاق بن گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی سیکیورٹی ادارے ملک کی اہم شخصیت کو بچانے میں ناکامی روبوٹ قاتل کا بہانہ بنا رہے ہیں۔جبکہ الیکٹرانک وارفیئر تجزیہ کار تھامس وِنگٹن نے باور کرایا کہ قاتل روبوٹ کے نظریے کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ایرانیوں کی عادت ہے مگر انہوں نے زور دے کرکہا کہ یہ کارروائی روبوٹ کے ذریعے انجام دی گئی۔
یہ روبوٹ زامیاد پک اپ کے فرش پر فٹ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا جو عام طور پر ایران میں استعمال ہوتی ہے۔ جہاں کیمرے نصب کیے گئے تھے تاکہ آپریشن روم کو نہ صرف ہدف بلکہ اس کی سکیورٹی کی تفصیلات اور آس پاس کے ماحول کی مکمل تصویر دی جا سکے۔ اس کے بعد اس گاڑی کو بارود سے بھرا جائے تاکہ آپریشن مکمل ہونے کے بعد اسے دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا جائے اور تمام شواہد مٹا دیے جائیں۔مصنوعی ذہانت کو کار کی تاخیر، اس کی لرزش اور رفتار کے مطابق پروگرام دیا گیا تھا جبکہ دوسرا چیلنج اصل وقت کا تعین کرنا تھا کیونکہ فخری زادہ خود گاڑی چلا رہے تھے۔ اس کا کوئی بیٹا، بیوی یا محافظ نہیں تھا۔جب قافلہ بحیرہ کیسپین کے ساحل پر واقع رستم کلا شہر سے روانہ ہوا تو پہلی گاڑی میں ایک سیکیورٹی گارڈ تھا۔ اس کے بعد ایک سیاہ غیر مسلح نسان کار جس کو فخری زادہ نے اپنی بیوی صادقہ قاسمی کے ہمراہ چلایا رہے تھے۔
سپریم قومی اسمبلی کے سیکریٹری علی شمخانی نے بعد میں ایرانی میڈیا کو بتایا کہ خفیہ ایجنسیاں قاتلانہ حملے کی ممکنہ جگہ سے آگاہ تھیں لیکن انہیں تاریخ کا یقین نہیں تھا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ فخری زادہ کئی دھمکیوں کے باوجود ان کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے۔انہوں نے قتل کے دن بکتر بند گاڑی میں سوار ہونے سے انکار کیا اور اپنی ایک گاڑی خود چلانے پر اصرار کیا۔اس نے مزید کہا کہ زادہ نے کسی ڈرائیور کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دی۔ اگر وہ خود پچھلی سیٹ پر بیٹھ جاتے تب بھی انہیں قتل کرنا مشکل ہوتا۔
ایک منٹ سے بھی کم وقت میں کیا ہوا؟
سہ پہر ساڑھے تین بجے سے کچھ پہلے قافلہ موڑ پر پہنچا۔ فخری زادہ کی گاڑی تقریبا رک گئی۔ آپریٹرز نے اسے مکمل طور پر پہچان لیا جو اس کی بیوی کو اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے بھی دیکھ سکتے تھے۔ گاڑی کے سامنیسے گولیاں فخری زادہ کو لگیں لیکن گاڑی گھوم کر رک گئی۔ مگر یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا ان گولیوں سے فخری زادہ کو نقصان پہنچا یا نہیں۔شوٹر نے نظر کو ایڈجسٹ کیا اور دوسرا شاٹ فائر کیا۔ کم از کم 3 بار ونڈشیلڈ کو مارا۔ کم از کم ایک گولی فخری زادہ کے کندھے پر لگی۔جب وہ گاڑی سے باہر نکلے تو 3 گولیاں ان کی ریڑھ کی ہڈی میں داخل ہوئیں اور وہ وہیں سڑک پر گرگئے۔پھر اس کی بیوی اس کے پاس بھاگی۔ شدید زخمی فخری زادہ نے بیوی سے کہا کہ دشمن مجھے مارنا چاہتے ہیں اور تمہیں وہاں سے نکلنا پڑے گا لیکن وہ زمین پر بیٹھ گئی اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔