سدرشن: اردو افسانہ نگاری کا ایک بھولا ہوا باب
پریم چند کے معاصر افسانہ نگاروں میں سے ایک نام سدرشن کا بھی ہے۔ ان کی پیدائش ۶۹۸۱ء میں سیالکوٹ، پنجاب کے ایک کشمیری برہمن خاندان میں ہوئی۔ بی اے تک کی تعلیم حاصل کی اور پھر روزگار کے سلسلے میں کانپور اور کلکتہ جیسے بڑے شہروں کے چکر لگانے کے بعد بالآخر ممبئی میں مقیم ہو گئے۔ وہاں انھوں نے فلمی دنیا میں کافی کامیابی حاصل کی اور ۰۵ کے قریب فلموں میں گانے،کہانیاں اور مکالمے لکھے۔ ۷۶۹۱ء میں ہارٹ اٹیک سے ممبئی کے ایک ہسپتال میں ان کی وفات ہو گئی۔
سدرشن کا پہلا مطبوعہ افسانہ پھول ہے جو”مخزن“ میں ۴۱۹۱ء میں شائع ہوا۔انھوں نے قریب۰۵۱/ افسانے لکھے جن میں ”شاعر“، ”وزیر عدالت“، ”صدائے جگر خراش“، ”دو دوست“ اور ”فریب دولت“ وغیرہ ان کے کامیاب اور اہم افسانے ہیں۔ سدرشن کا پہلا افسانوی مجموعہ ”طائر خیال“ ہے۔ اس کے علاوہ ”چندن“، ”قوس قزح“، ”بہارستان“، ”چشم و چراغ“، ”سولہ سنگھار“، ”صبح وطن“ اور ”پریم چالیسی“ وغیرہ ان کے دوسرے اہم افسانوی مجموعے ہیں۔
سدرشن صرف پریم چند کے ہم عصر ہی نہیں تھے بلکہ ان کے مقلد اور پیروکار بھی تھے۔ ان کی طرح یہ بھی گاندھیائی فکر اور آریہ سماج تحریک سے کافی متاثر تھے۔ ان کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی اپنے پلاٹ اور کردار کا انتخاب اپنے ارد گرد کے ماحول سے کرتے ہیں اور سماج (بالخصوص متوسط طبقہ کے ہندو سماج) میں پھیلی مختلف برائیوں کی اصلاح کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔بقول مرزا حامد بیگ:
”مہاشہ سدرشن کی نمایاں پہچان مہاتما گاندھی کے افکار کا پرچار اور تکنیکی سطح پر مخصوص نوع کی اصلاح پسندی ہے، جس کی مثال سدرشن سے پہلے محض چند برس پریم چند کے یہاں دکھائی دی تھی۔ شاید اسی لیے سدرشن کو پریم چند کا مقلد کہا جاتا ہے جب کہ ان دونوں کا فرق بہت ہے۔ سدرشن لہجہ کے اعتبار سے رومانی ہیں اور ان کا اظہار شاعرانہ۔ تشبیہات سے انسانی جذبات کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ افسانوی تدبیر کاری کے اعتبار سے سدرشن نے اردو افسانے میں نفسیاتی تجزیہ کی بنیاد رکھی اور ڈھکی چھپی نفسیاتی الجھنوں پر سے پردے اٹھائے۔ یاں اہمیت کے قابل بات یہ ہے کہ سدرشن کے کردار طے شدہ نفسیات کے حامل نہیں ہیں ارد گرد کا تبدیل ہوتا ہوا ماحول ان کی شخصیت سازی کرتا ہے۔“
سدرشن پریم چند کے مقلد ہونے کے باوجود ان سے الگ ہیں۔ دونوں کے اسلوب و بیان اور زبان میں کافی فرق ہے۔پریم چند کے برعکس سدرشن کا خاص موضوع دیہات نہ ہو کر شہر کے سفید پوش ہندو ہیں۔ سدرشن کے افسانے میں قناعت پسندی اوردنیا سے بے رغبتی کا رجحان اس قدر غالب ہے کہ ان پر صوفی ہونے کا گمان ہوتا ہے۔
فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو افسانے کے فن پر سدرشن کی پکڑاتنی مضبوط نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود ان کے بعض افسانے فنی اعتبار سے مکمل مانے جاسکتے ہیں۔فطری اورحقیقی کردار، عام فہم زبان اور سادہ لیکن دل کش اسلوب ان کی افسانہ نگاری میں چار چاند لگا دیتے ہیں۔ سدرشن کی افسانہ نگاری کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے بیش تر افسانوں کا خاتمہ المیہ ہوتا ہے۔ بطور افسانہ نگار سدرشن کو اگر کوئی چیز ان کے تمام معاصرین سے ممتاز کرتی ہے تو وہ ان کی جذبات نگاری ہے۔وہ اپنے افسانوں میں اس قدر جذبات نگاری سے کام لیتے ہیں کہ وقار عظیم نے ان کو”اردو کا سب سے بڑا جذبات نگار افسانہ نویس“ کہا ہے۔