طالبان حکومت نے اقوامِ متحدہ کے لیے سہیل شاہین کو اپنا نیا سفیر نامزد کرتے ہوئے عالمی ادارے سے درخواست کی ہے کہ افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ کو رواں ہفتے جنرل اسمبلی سے خطاب کی اجازت دی جائے۔طالبان حکومت کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے درخواست کی ہے کہ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے انہیں خطاب کی اجازت دی جائے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق انتونیو گوٹیرس کے ترجمان فرحان حق نے امیر خان متقی کا خط موصول ہونے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ طالبان حکومت کے قائم مقام وزیرِ خارجہ کی درخواست اقوامِ متحدہ کی نو رکنی کریڈینشل کمیٹی کو بھیج دی ہے۔اس کمیٹی میں امریکہ، چین اور روس کے علاوہ بھوٹان، چلی، نمیبیا، بہاماس، سوئیڈن اور سیئر لیون شامل ہیں۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس پیر تک جاری رہے گا اور کریڈنشل کمیٹی کی جانب سے پیر سے قبل طالبان حکومت کی درخواست پر غور کرنے کا امکان نہیں۔ اس لیے طالبان حکومت کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا جنرل اسمبلی سے خطاب بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔
یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں اجلاس کا آغاز 14 ستمبر کو ہوا تھا اور یہ 27 ستمبر تک جاری رہے گا۔ اب تک امریکہ اور چین سمیت کئی اہم ملکوں کے سربراہان جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کر چکے ہیں۔طالبان نے گزشتہ ماہ ہی اقوامِ متحدہ میں افغانستان کے مندوب غلام اسحاقزی کو بے دخل کر دیا تھا اور اب ان کی جگہ سہیل شاہین کو اقوامِ متحدہ میں سفیر نامزد کیا ہے جو طالبان کی ترجمانی کرتے رہے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان فرحان حق کا کہنا ہے کہ طالبان نے خط میں کہا ہے کہ اسحاقزی کے مشن کو اب ختم سمجھا جائے اور وہ اب افغانستان کی نمائندگی نہیں کریں گے۔ یو این جنرل اسمبلی کے قواعد کے مطابق جب تک کریڈنشل کمیٹی کسی ملک کے مندوب سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہ کر لے اس وقت تک اسحاقزی اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔
اسحاقزی کو 27 ستمبر کو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنا ہے تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا کوئی ملک طالبان کے خط کے بعد اس اعتراض کر سکتا ہے۔ غلام اسحاقزی معزول صدر اشرف غنی کی کابینہ کا حصہ تھے جو اب تک سلامتی کونسل میں افغانستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔اگر اقوامِ متحدہ میں طالبان کے سفیر کو تسلیم کیا گیا تو یہ طالبان حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کے لیے ایک اہم قدم ہو گا۔ رواں ماہ کے اوائل میں ہی غلام اسحاقزی نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران عالمی برادری سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ طالبان کو تسلیم نہ کرے اور ان پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں۔واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی کریڈنشل کمیٹی عموماً اکتوبر یا نومبر میں بیٹھتی ہے جس کے دوران تمام رکن ممالک کی اہلیت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس سے قبل 1996 سے 2001 تک طالبان کی حکومت کے دوران اقوامِ متحدہ نے طالبان کے نمائندے کو افغانستان کا نمائندہ تسلیم نہیں کیا تھا۔