غزہ،24ستمبر(انڈیا نیرٹیو)
اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے اپنے دورہ مصرسے واپسی کے فورا بعد غزہ میں حماس کے ہاں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی اویرا مینگسٹو کے خاندان سے ملاقات کی اور حماس کے زیر حراست فوجیوں اور شہریوں کی باقیات کی بازیابی کے اپنے ذاتی عزم اور کوششوں کا یقین دلایا۔ تاہم یہ وعدہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے لیے کافی نہیں تھا جنہوں نے تل ابیب حکومت پربار ہا تنقید کی اور حکومت پرغزہ میں قید ان کے پیاروں کی رہائی کے معاملے کوسنجیدگی سے نہ لینے اوران کے ساتھ دھوکہ دہی کا الزام عاید کیا۔اس تنقید نے "حماس" کو یہ ظاہر کرنے کا موقع دیا کہ اس نے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی تکمیل کے لیے ایک روڈ میپ پیش کیا تھا جو اس نے ثالثوں کے ذریعے اسرائیل کو بھیجا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل اپنیموقف میں لچک دکھائے تو حماس قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے۔
حماس کے ہاں اسرائیلی قیدیوں کیامورکے انچارج زاھر جبارین نے بتایا ہے کہ ان کی جماعت نے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل کے لیے اپنے ثالثوں کے سامنے روڈ میپ پیش کیا ہے۔ ہم نے قیدیوں کی رہائی سے متعلق اپنی تمام شرائط تفصیل کے ساتھ اپنے ثالثوں کے ذریعے تل ابیب تک پہنچا دی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گیند اب قابض دشمن کے کورٹ میں ہے۔زاھر جبارین جو فلسطینی اسیران کے امور کی نگرانی کررہے ہیں نے کہا کہ اسرائیلی زندانوں میں قید فلسطینی بہن بھائیوں کی رہائی کا معاملہ جماعت کے ہر اجلاس میں بحث کا حصہ رہتا ہے۔ اسیران کی رہائی حماس کی پہلی ترجیح ہے۔
یہ واضح ہے کہ اس کیس کو مکمل کرنے کی کوشش میں تیزی سے نقل و حرکت دیکھی جا رہی ہے۔ بینیٹ کے اسرائیل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار تل ابیب نے مصری ثالثوں کو آگاہ کیا کہ وہ حماس کے پیش کردہ روڈ میپ کا مطالعہ کرنے کے لیے بالواسطہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔اسرائیل اور فلسطینیوں کیدرمیان قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل پر بات چیت کرونا وائرس کے پھیلنے کے بعد اپریل 2020 میں اس شروع ہوئی جب غزہ میں حماس کے سربراہ یحییٰ السنوار نے اسرائیل کو قیدیوں کے تبادلے کے لیے انسانی بنیادوں پر کام کرنے کی پیش کش کی۔انہوں نیاسرائیل کو تجویز دی کہ وہ اپنے قیدیوں کے بدلے میں اپنی جیلوں میں قید بزرگ اور بیمار فلسطینیوں کو رہا کردے، اس کے بدلے میں حماس بھی اپنی بعض شرائط میں نرمی کرے گی، تاہم اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے حماس کی اس پیش کش کو تسلیم کیا مگر اس پرعمل درآمد نہیں ہوسکا۔رواں سال غزہ میں فلسطینی دھڑوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان لڑائی چھڑ گئی۔ تقریبا ڈیڑھ ہفتے تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد فریقین میں جنگ بندی ہوئی مگر اسرائیل نے غزہ کی تعمیر نوقیدیوں کی رہائی کے ساتھ مشروط کرنے کی کوشش کی۔ تاہم ثالثی کرنے والے ممالک نے اسرائیل کو غزہ کی تعمیر نو اور قیدیوں کے معاملات کو الگ الگ رکھنے پرقائل کرلیا۔
"حماس" کی جانب سے ثالثوں کے ذریعے اسرائیل کو پیش کردہ تبادلے کے معاہدے کے روڈ میپ میں دو تجاویز شامل ہیں۔ زاہر جبارین کا کہنا ہے کہ تحریک ایک جامع معاہدہ چاہتی ہے۔ اس معاہدے پر ایک یا دو مراحل میں عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ اسرائیل کی تیاری پرمنحصر ہے۔معلومات کے مطابق حماس کے پیش کردہ روڈ میپ کے تحت اگراسرائیل ایک ہی مرحلے کے فریم ورک میں قیدیوں کی رہائی پر تیار ہے تو اسے ان 60 قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا جنہیں سنہ2011 کیگیلاد شالیت معاہدے میں رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ان تمام قیدیوں کا تعلق غرب اردن سے ہے۔ اس کے علاوہ اس ڈیل میں اسرائیل کو تمام خواتین قیدیوں، بچوں اور مریضوں، عمر رسیدہ افراد کو رہا کرنا ہوگا۔ رہا ہونے والے قیدیوں کی فہرست میں وہ قیدی بھی شامل ہوں گے جن کی رہائی پر فریقین متفق ہوں۔ اس کے علاوہ طویل مدت کی قید کی سزائیں پانے والے قیدیوں کی رہائی بھی ڈیل کا حصہ ہوگی۔اس صورت میں حماس اپنے ہاں اسرائیلی جنگی قیدیوں چاہے وہ زندہ ہیں یا مردہ انہیں ایک ساتھ واپس کرے گی۔حماس کے پیش کردہ روڈ میپ کے تحت اگراسرائیل معاہدے کو دو مراحل میں مکمل کرنا چاہتا ہیتو حماس بھی دو مراحل میں کام کرے گی۔ حماس کی شرائط کے مطابق پہلے مرحلے میں اسرائیل گیلاد شالیت معاہدے کیدوبارہ گرفتار 60 قیدیوں کو رہا کریگا۔ تمام خواتین، بچوں اور بیمار قیدیوں کو رہا کرے گا۔ اس کے بدلے میں حماس اپنے ہاں قید اسرائیلیوں کے بارے میں ٹھوس معلومات فراہم کرے تاہم ان کی رہائی اسرائیل کی طرف سے معاہدے کے دوسرے مرحلے کی تکمیل پر ہوگی۔دوسرے مرحلے میں اسرائیل کو طویل المیعاد قید کے سزا یافتہ اور اسرائیلیوں کے قتل میں ملوث ان فلسطینیوں کو رہا کرنا ہوگا جن کی رہائی پر فریقین میں اتفاق رائے طے پا چکا ہو۔ ان کی رہائی کے بعد حماس اپنے ہاں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلیوں کو رہا کرے گی۔