نئی دہلی،25ستمبر؍2021:
نائب صدر جمہوریہ جناب ایم ونکیا نائیڈو نے آج صحت شعبے میں تربیت یافتہ انسانی وسائل کی کمی کو جنگی پیمانے پر دور کئے جانے کی بات کہی۔ ڈبلیو ایچ او کے 1:1,000کے پیمانے کے مقابلے بھارت میں آبادی تناسب ایک 1:1,511کے تناظر میں ڈاکٹروں کی کمی کو دیکھتے ہوئے اُنہوں نے ہر ضلع میں ایک میڈیکل کالج اور اسپتال قائم کرنے کے سرکار کے ارادے کے مطابق زیادہ مڈیکل کالج قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ملک میں پیرا میڈیکل اسٹاف کی کمی کا ذکر کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے مشن موڈ میں نرسوں کی آبادی تناسب (بھارت میں ڈبلیو ایچ او کے 1:300کے پیمانے کے مقابلے 1:670) میں بہتری لانے پر زور دیا۔دیہی علاقوں میں تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی پر اُنہوں نے گاؤں میں خدمت کے لئے صحت کی دیکھ بھال کرنے والے ملازمین کو متوجہ کرنے کے لئے بہتر حوصلہ افزائی اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کا مشورہ دیا۔
یونیورسٹی کالج آف میڈیکل سائنسز ، نئی دہلی کے کنووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے آزادی کے بعد سے متعدد صحت عشاریہ میں بہتری کا ذکر کیا اور کہا کہ ایسے کئی چیلنجز بھی تھے، جن کے لئے سرکار اور پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے اشتراک اور ٹھوس نظریے کی ضرورت ہوتی ہے۔
جناب نائیڈو نے زور دے کر کہا کہ ’سب کے لئے صحت‘کے ہدف کو حاصل کرنے کی سمت میں پہلا قدم صحت پر عوامی خرچ کو بڑھانا ہے۔ انہوں نے پندرہویں مالیاتی کمیشن کی سفارشات کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ ریاستوں کو 2022ء تک صحت پر خرچ کو اپنے متعلقہ بجٹ کے 8 فیصد سے زیادہ تک بڑھانا چاہئے اور مرکز و ریاستوں کے عوامی صحت اخراجات کو ایک ترقی پسندانہ طریقے سے بڑھا کر 2025ء تک جی ڈی پی کا(مجموعی گھریلو پیداوار) کا 2.5 فیصد تک کرنا چاہئے۔
صحت خدمت میں پیرامیڈیکل عملے کے اہم رول کی ستائش کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا وہ جو خدمت مہیا کرتے ہیں، اس کی اہمیت وباء کے دوران سامنے آئی، کیونکہ انہوں نے پچھلے ایک سال کے دوران زیادہ محنت کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارتیہ نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے اپنی صلاحیت ، لگن اور دیکھ بھال کرنے کے رویے کے ساتھ سالوں سے عالمی سطح پر ایک وقار اور ڈیمانڈ حاصل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں پیدائشی صلاحیت کا فائدہ اٹھاکر مزید منظم طریقے سے صحت ملازمین کو تربیت فراہم کی جائے اور ہمارے عوامی صحت کے شعبے میں انہیں ایک بڑا رول ادا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
انہوں نے متعلقہ صحت ملازمین کو تربیت دینے کے لئے 13,000کروڑ روپے سے زیادہ بجٹ مختص کرنے کے لئے 15ویں مالیاتی کمیشن کی سفارش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے اضافہ 15لاکھ ورک فورس کے تیار ہونے کی امید ہے۔
صحت دیکھ بھال میں جدت طرازی پر بولتے ہوئے جناب نائیڈو نے کہا کہ حال کے سالون میں ای-صحت بڑے پیمانے پر سامنے آیا ہے اور دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی کمی کے مسئلے کو اس سے بڑی حد تک کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی بڑھتی ہوئی رسائی کے ساتھ ای-صحت ،صحت خدمات میں ہمارے انسانی وسائل کے اعلیٰ ترین استعمال کے لئے آئندہ کی راہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ای-صحت خواتین کو بااختیار بنا سکتا ہے اور ماؤں کی صحت و دیگر ایشوز پر بیداری بھی لاسکتاہے۔
وزارت صحت کے ذریعے مختلف ای-صحت پہلوں کو نوٹ کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے اُنہیں مزید مقبول بنانے اور اُس میں اضافہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ جناب نائیڈو نے زور دے کر یہ بات کہی کہ اب جبکہ بھارت ایک ڈیجیٹل انقلاب کے دور سے گزر رہا ہے، ہمیں اِس کا فائدہ اٹھانا چاہئے اور صحت خدمات میں انقلاب لانا چاہئے۔
’ڈیجیٹل صحت ریکارڈ‘ کے فوائد کو اُجاگر کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کچھ دنوں میں پردھان منتری ڈیجیٹل صحت مشن کی شروعات کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اِس سے کاغذی کارروائی ختم ہوگی، اسپتالوں میں ایک خوشگوار تجربہ ہوگا اور اِس سے بیماریوں کی نگرانی میں بڑی مدد ملے گی۔
صحت پر بہت زیادہ ہونے والے خرچ پر تشویش کا اظہا ر کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ اِس طرح کے صحت اخراجات کم آمدنی والے خاندانوں پر منفی اثر ڈالتے ہیں، جو غربت میں دھکیلے جانے کے جوکھم کا سامنا کرتے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ سرکار اہم منصوبہ ’آیوشمان بھارت‘نے کئی غریب خاندانوں کو دوسرے درجے اور تیسرے درجے کی دیکھ بھال کے لئے اسپتال میں بھرتی کے لئے صحت کی یقینی دہانی کرائی ہے اور اب تک اِس مشن نے 2 کروڑ سے زیادہ اسپتالوں کو کوور کیا ہے۔
نائب صدر جمہوریہ نے وباء کے دوران ڈاکٹروں ، صحت ملازمین اور دوسرے فرنٹ لائن ورکر کے ذریعے دی جارہی مفت خدمات کی ستائش کی۔اُنہوں نے تمام اہل لوگوں کا جلد از جلد ٹیکہ کاری کرنے پر زور دیا اور اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ شہری گروپ مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر لوگوں کو ٹیکہ کاری کے لئے متحرک کریں۔اُنہوں نے کہا کہ لوگوں کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ کووڈ پروٹوکول پر عمل کرنا چاہئے ،ہم مطمئن نہیں ہوسکتے اور تیسری لہر کو دعوت نہیں دے سکتے۔
کنووکیشن کے دوران فیکلٹی اور دیگر لوگوں کے ذریعے لباس پہننے کی روایت کا ذکر کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اسے بند کردیا جائے اور ایسے مواقع پر عام بھارتیہ لباس پہنا جانا چاہئے۔اسی پس منظر میں اُنہوں نے تعلیمی نظام کا بھارتیہ کرن کرنے پر زور دیا۔
جناب نائیڈو نے کووڈ-19 کے انتظام کے دوران دونوں اداروں کے ذریعے فراہم کی جارہی عظیم خدمت کے لئے یونیورسٹی کالج آف میڈیکل سائنسز اور اس سے وابستہ گورو تیگ بہادر اسپتال کی ستائش کی۔
اس موقع پر دہلی یونیورسٹی کے کارگزار وائس چانسلر پروفیسر پی سی جوشی، آئی سی ایم آر،کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر بلرام بھارگو، دہلی یونیورسٹی میں ڈی آف کالجز ، پروفیسر بلرام پانی اور یو سی ایم ایس کے پرنسپل ڈاکٹر انیل کمار جین اور دیگر اہم شخصیات موجود تھیں۔