جمعہ کے روز عراق کے نیم خود مختار صوبہ کردستان کے دارالحکومت اربیل میں ایک امن کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں عراقی حکومت سے اسرائیل کیساتھ تعلقات کے قیام پر زور دیتیہوئے بغداد سے ”ابراہیمی معاہدوں“ میں شمولیت کا مطالبہ کیا گیا۔اربیل میں منعقد ہونے والی یہ اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی۔ یہ کانفرنس "امن اور بحالی" کے عنوان سے منعقد کی گئی تھی جس میں عراق کی 300 سے زائد شخصیات نے شرکت کی۔کانفرنس کے اختتام پر جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ "ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم ابراہیم معاہدوں میں شامل ہوں۔ دوسرے عرب ملکوں کی طرح اسرائیل کے ساتھ ہمارے بھی سفارتی تعلقات قائم ہوں۔ اسی طرح ہم اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پرلانے اور نئی پالیسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ عراقی عوام کی ترقی اور خوش حالی کے لیے ہمیں بھی آگے بڑھنے اور اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کی ضرورت ہے“۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کانفرنس میں شعیہ اور سنی دونوں مسالک کے لوگ موجود ہیں۔ اس میں (سنی) بیداری سنز آف عراق موومنٹ کے ارکان کے ساتھ ساتھ دانشور، قبائلی عمائد اور نوجوان کارکن شامل ہیں۔ ہم میں سے میدان میں داعش اور القاعدہ جیسے گروپوں کا سامنا کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ایک عرصے سے خون اور آنسوؤں سے دیکھے ہیں۔ہم تمام شدت پسندوں کے خلاف ہیں، جیسا کہ ہم نے اپنی حب الوطنی کا مظاہرہ کیا ہے۔کانفرس کے شرکا کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک متحدہ عراق کے لیے جانیں قربان کیں اور ہم ایک وفاقی نظام حکومت کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں جیسا کہ ہماری قوم کے آئین میں بیان کیا گیا ہے۔
دوسری طرف عراق کی وفاقی حکومت نے صوبہ کردستان کے دارالحکومت اربیل میں منعقد ہونے والی اس نام نہاد امن کانفرنس کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔عراقی وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی کے دفترسے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عراق قضیہ فلسطین کی حمایت کے دیرینہ اور اصولی موقف پرقائم ہے۔ ہم کسی بھی فورم پر اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کو مسترد کرتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اربیل میں ہونے والی نام نہاد امن کانفرنس چند قبائل کی طرف سے بلائی گئی تھی۔ یہ کانفرنس عراق کی نمائندہ نہیں اور نہ ہی بغداد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کا کوئی مطالبہ تسلیم کرے گا۔
خیال رہے کہ جمعہ کے روز اربیل میں ایک نام نہاد امن کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں عراق کے بعض قبائلی عمائندین اور کرد لیڈروں نے شرکت کی تھی۔اس کانفرنس میں عراقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے اور صہیونی ریاست کے ساتھ اعلانیہ تعلقات قائم کرے۔اس کانفرنس کے بعد عراقی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بغداد حکومت اس نام نہاد کانفرنس کو مسترد کرتی ہے۔ یہ کسی عراقی شہر یا حکومت کی نمائندہ نہیں۔ اس کانفرنس میں عراقی عوام کی آڑ میں اپنی مذموم سوچ اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔بیان میں کہا گیا ہیکہ ایک مٹھی بھر گروپ اپنے مخصوص فرقہ وارانہ مقاصد کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کی مہم چلا رہا ہے جب کہ عراق میں اس وقت دس اکتوبر کو شفاف انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں۔