Urdu News

بھیڑ میں اکیلا: نواز دیو بندی

ڈاکٹر نواز دیوبندی مشاعروں کے مقبول ترین شاعر ہیں

 بھیڑ میں اکیلا: نواز دیو بندی

ذرا مختلف ہیں نواز دیوبندی
ڈاکٹر نواز دیوبندی مشاعروں کے مقبول ترین شاعر ہیں۔ رانچی سے کراچی تک، مؤ ناتھ بھنجن سے لندن تک اور دبئی سے سیفئی تک مشاعروں کے اسٹیج پر جن شعرا کی موجودگی کو مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے ان میں ایک محترم اور معتبر نام نواز دیوبندی کا ہے۔ نواز صاحب اپنے کلام کی متانت اور سنجیدگی اور اپنے کلام پڑھنے کے خاص انداز سے جادو جگاتے ہیں۔ مگر یہاں میرا موضوع سخن نواز دیوبندی کی شاعری اور مشاعروں میں انکی کامیابی نہیں ہے۔ اس موضوع پہ گفتگو پھر کبھی۔ آج نواز دیوبندی کی شخصیت کے ایک ایسے پہلو کی طرف اشارہ مقصود ہے جس طرف عام طور پہ لوگوں کی نظر نہیں گئی ہے۔ 
دیوبند مغربی اتر پردیش کے سہارن پور ضلع میں ایک قصبہ ہے۔ مظفرنگر سے سہارنپور جاتی ہوئی سڑک پہ لگبھگ درمیان میں۔ سارے عالم میں جو لوگ مطفر نگر اور سہارنپور جیسے شہروں کو نہیں جانتے وہ بھی دیوبند کو جانتے ہیں۔ دیوبند دنیا بھر میں دارالعلوم کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ گزشتہ دسمبر ماہ میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد کے دیوبند واقع اسٹڈی سینٹر پہ بطور آبزرور جانا ہوا۔ مانو کے دہلی ریجنل سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شاہد پرویز کا حکم تھا۔ جانا پڑا۔ دیوبند اور دیوبند کے احباب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔دارالعلوم کے درشن بھی کئے۔ انٹرنیشنل معیار کی اسلامی لائبریری کی زیرِ تعمیر بلڈنگ دکھانے کا کام یامین خان صاحب نے کیا۔                                                                                 
   دہلی سے دیوبند کے لئے نکلتے وقت یہ بات ذہن میں تھی کہ نواز صاحب اگر دیوبند میں ہوئے تو ملاقات ہوگی۔ قلعہ محلہ میں اسلامیہ انٹر کالج میں وقت گزارنے کا موقہ ملا۔ کالج کے پرنسپل جناب شمیم مرتضی فاروقی کا خوب ساتھ رہا۔ فاروقی صاحب بڑے نفیس، زندہ دل اور دلچسپ آدمی ہیں۔ نواز دیوبندی کے پڑوسی اور بہت اچھے دوست بھی ہیں۔ ایک طرف قدیم روایتوں کے امین تو دوسری طرف جدید ٹکنالوجی کے حمایتی۔ اسلامیہ کالج میں بہترین کمپوٹر سینٹر ہم نے دیکھا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اسلامیہ انٹر کالج کے پرنسپل، پانچ وقت کے نمازی شمیم مرتضی فاروقی اسی کالج کے استاد سنجے شرما کو ساتھ نہ بٹھا لیں تو مانو دسترخوان ہی ادھورا ہے۔ دراصل یہی ہمارا ملک ہے، یہی بھارت ہے، یہی اس کی خوبصورتی ہے۔ ملک کی اسی خوبصورتی کو اور نکھارنے کا کام فاروقی صاحب کر رہے ہیں اور یہی کام انکے دوست نواز دیوبندی صاحب بھی کر رہے ہیں۔ 
ڈاکٹر نواز دیوبندی سے پرنسپل صاحب نے میری ملاقات کرائی۔ نواز صاحب سے پہلے کئی ملاقاتیں رہی ہیں۔ مگر زیادہ تر اسٹیج پر۔ کبھی میں مشاعرے کی نظامت کر رہا ہوں اور نواز صاحب کلام پڑھ رہے ہیں۔ بہت پہلے ٹی وی کے ایک مشہور پروگرام کے اینکر نواز صاحب تھے اور میں بھی اس پروگرام میں شامل تھا۔ دہلی میں شوٹنگ چل رہی تھی۔ کوئی تکنیکی پرابلم آجاتی تو گھنٹوں ہم میک اپ کئے ہوئے انتظار کرتے۔ شعروادب کی باتیں ہوتیں۔ آف دی ریکارڈ گفتگو میں بھی کیا مجال کہ نواز دیوبندی سے متانت اور سنجیدگی کا دامن چھوٹ جائے۔ اسی شوٹنگ کے دوران ہم نے ڈاکٹر بشیر بدر کی آف دی ریکارڈ گفتگو بھی سنی ہے۔ اللہ کی پناہ۔ 
اس مرتبہ دیوبند میں ملاقات ذاتی نوعیت کی تھی۔ نواز صاحب دیوبند میں تھے اور اپنے اسکول کے کسی فنکشن میں مصروف تھے۔ فاروقی صاحب نے فون کیا کہ دہلی سے شفیع ایوب آئے ہیں۔ ہم دوپہر کا کھانا ساتھ کھائیں گے۔ نواز صاحب آئے۔ دلچسپ گفتگو رہی۔ نواز صاحب کا بچپن پریشانیوں میں گزرا تھا۔ انھوں نے اپنے بچپن کے حالات بتائے۔ بڑی مشکل سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ انھوں نے پروفیسر خورشیدالاسلام کی طرح اپنے بچپن کے حالات چھپائے نہیں بلکہ اخترالایمان کی طرح دنیا کو بتایا کہ ایک غریب اور نادار بچہ کتنی مشکلیں برداشت کرکے اپنی پڑھائی جاری رکھتا ہے۔ کیسے سپنے دیکھتا ہے اور ان سپنوں کو پورا کرنے کے لئے حالات سے لڑتا ہے۔ نواز اپنے ماضی کو چھپانا نہیں چاہتے وہ دنیا کو بتانا چاہتے ہیں۔ وہ بہت کھل کے گفتگو کر رہے تھے۔ لنچ ختم ہوتے ہوتے مشاعروں کا کامیاب شاعر نواز دیوبندی میری نظروں میں بہت بہت بلند ہو چکا تھا۔ 
نواز دیوبندی کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مشاعروں سے ملی شہرت کو خوب بھنایا۔ اپنے لئے نہیں، نئی نسل اور خصوصی طور پہ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے۔ مشاعروں سے انھیں شہرت ملی، عزت اور دولت بھی۔ نواز صاحب نے شہرت کی بلندی پہ اپنا سب کچھ تعلیم کے فروغ کے لئے وقف کر دیا۔ زندگی کا مقصد بنا لیا۔ نواب عظمت علی خان گرلس ڈگری کالج، نواب عظمت علی خان گرلس انٹر کالج، نواب عظمت علی خان گرلس پرائمری اسکول، مظفر نگر، نواب عظمت علی خان گرلس ووکیشنل انشٹی ٹیوٹ، مظفر نگر، مدنی ٹیکنیکل انشٹی ٹیوٹ، دیوبند، نواز گرلس پبلک اسکول دیوبند، سر سید اکیڈمی دیوبند، الہند ایجوکیشنل سوشل ویلفیئر سوسائٹی، دیوبند، وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام تعلیمی ادارے نواز دیو بندی کی انتھک کوشش، محنت اور خلوص کا نتیجہ ہیں۔ کیا یہ صاحب دیوبند کے سر سید نہیں ہیں؟ اردو کے نہ جانے کتنے شاعروں نے مشاعروں سے شہرت اور دولت کمائی اور شراب، کباب اور شباب میں اڑا دی۔ ڈاکٹر نواز دیوبندی نے ایک بڑا کام کر دکھایا ہے۔ قوم کے سامنے ایک عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ صدہا مبارکباد۔ 

                                              ڈاکٹر شفیع ایوب
                                            ۔ ہندستانی زبانوں کا مرکز، جے این یو، نئی دہلی
Dr. Shafi Ayub, Centre Of Indian Languages, SLL&CS/ J. N. U. New Delhi – 110067

Recommended