افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ قندوز اور قندھار میں دھماکے ثابت کرتے ہیں کہ داعش افغانستان کے لیے خطرہ ہے۔امریکی میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں سابق افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ طالبان کی موجودہ حکومت کو عالمی سطح پر قبولیت سے قبل ملک میں قانونی حیثیت درکار ہوگی۔انہوں نے کہا کہ یہ قانونی حیثیت صرف انتخابات یا لویہ جرگہ میں افغان عوام کی خواہش کے اظہار کے ذریعے ہی مل سکتی ہے۔
سابق صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو افغانستان کی نمائندگی کے بجائے سول تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کے ساتھ افغان عوام کے گہرے تعلقات ہیں۔
افغانستان: ننگرہار میں طالبان کے ہاتھوں داعش کا عہدیدار گرفتار
افغانستان میں طالبان تحریک نے مشرقی صوبے ننگرہار میں داعش تنظیم کے "والی" (عہدیدار) کو گرفتار کر لیا۔ ننگرہار کو داعش تنظیم کا گڑھ شمار کیا جاتا ہے۔داعش تنظیم کے سیکڑوں ارکان نے ننگرہار صوبے میں پناہ لے رکھی ہے۔ بالخصوص اگست کے وسط میں افغان دارالحکومت کابل پر کنٹرول کے بعد طالبان کی جانب سے جیلوں کو خالی کرنے کے بعد مذکورہ صوبہ داعش کا گڑھ بن گیا۔
ماضی میں ننگرہار صوبہ بالخصوص تورا بورا کے پہاڑ القاعدہ تنظیم کی آماج گاہ تھے۔رواں ماہ 4 اکتوبر کو طالبان حکومت نے کابل میں ایک سیکورٹی کارروائی کے دوران میں "داعش خراسان" تنظیم کے ایک گروپ کو نشانہ بنائے جانے کا اعلان کیا تھا۔ٹویٹر پر طالبان حکومت کے سرکاری اکاؤنٹ پر بتایا گیا کہ "یہ چھاپہ مار کارروائی نہایت کامیاب رہی اور گروپ کے تمام ارکان کو ہلاک کر دیا گیا"۔یہ کارروائی افغانستان میں داعش تنظیم کی جانب سے کابل ہوائی اڈے کے باہر دو خونی دھماکوں کی ذمے داری قبول کرنے کے بعد عمل میں آئی۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں 72 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ مارے جانے والوں میں 13 امریکی فوجی بھی تھے۔ماضی میں داعش تنظیم (ولایتِ خراسان) اور طالبان تحریک کے بیچ شدید معرکے ہو چکے ہیں۔امریکی اخبار نیویارک پوسٹ کے مطابق یہ افغانستان میں یہ تنظیم 2015ء میں تشکیل دی گئی۔رواں ماہ 8 اکتوبر کو طالبان تحریک نے جنوبی صوبے نمروز کے گاؤں "مولی علی" میں 8 افراد پر مشتمل داعش تنظیم کے ایک گروپ کو گرفتار کر لیا تھا۔ گروپ کے قبضے سے ہتھیار اور بم بھی برآمد کیے گئے تھے۔