حافظہ عائشہ صدیقہ
ایم فل اردو(گولڈ میڈلسٹ)
لاہور،پاکستان
ہربدلتا وقت ایک نئے رجحان اور کیفیت کو جنم دیتا ہے۔گزشتہ برس کووڈ۔19کے باعث جو تباہی اور ہولناکی دیکھنے میں نظر آئی،اس کے اثرات کی بازگشت رواں برس بھی دکھائی دے رہی ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہم تغیرات زمانہ سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنے زورِ بازو پر یقین محکم رکھتے ہوئے،عمل پیہم کی طرف جاوداں نہیں ہوں گے کیونکہ جدید ترین ٹیکنالوجی اور سائنس کی روز افزوں ترقی اس کے مہیب اثرات کے سامنے بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنی نظر آئی۔گو سائنس دانوں نے تحقیق و جستجو اور جہد مسلسل سے اس وبا کے پھیلاؤ میں کسی حد تک قابو پالیا ہے لیکن اس وبا نے جس طرح نظا م زندگی کو تباہ کردیا،اس میں سب کے لیے عبرت و نصیحت کا سامان ہے۔
وبائی دور کے اس کٹھن حالات میں بھی ادبا و شعرا ذہنی پراگندگی اور معاشی بدحالی کی اندوہ ناکی میں بھی پرورش لوح وقلم کرتے رہے۔انہوں نے اپنے زرخیز تخیل کی فراوانی سے ان حالات و واقعات کو پورے سماجی و عصری شعور کے ساتھ لفظوں کے قالب میں ڈھال کر کرونائی عہد کی تصویر کشی کی۔اس دور وبا کی الم ناکی کے دردو کرب کو جن اچھوتے تخلیقی تجربات کی مدد سے فنی چابکدستی سے پیرایہ ئاظہار میں پیش کیا،اس سے ادب کی وسعتوں میں مزید اضافہ ہواہے۔نئی اصطلاحات اور تجربات نے دامن ادب کو اور وسیع کردیاہے۔ان ادبا و شعرا نے انتعاش غم کے لیے جس ندرت و نفاست سے تخلیق فن کا سہارا لیا ہے،اس سے ان کی ذہنی ذکاوت اور تخلیقی فعالیت کا بین اظہار ہوتا ہے۔
جہاں اس بدلتے وقت نے انسانیت کو کرب و ملال سے دوچار کیا،وہاں اس پر بہت سی حقیقتیں بھی آشکار کیں۔ہر طوفان زندگی کی کشتی کو زیر و زبر کرنے کے لیے نہیں آتے بلکہ کچھ گردوغبار کے گہرے بادلوں کو دور کرکے راستوں کو صاف کرنے کے لیے بھی ہوتے ہیں۔کووڈ۔19کے باعث عالمی تناظر میں جہاں تشویش اور بے چینی ابھری،وہاں باہم ایثار،خلوص،یکجہتی،احساس مروت اور باہمی ہم آہنگی کو بھی فروغ ہوا۔اس مشکل گھڑی نے انسان کو عارضی زندگی کی حقیقت سے روشناس کرواتے ہوئے یہ پیغام بھی دیا کہ تکلیف کتنی بڑی اور گہری کیوں نہ ہوغم کے بادل چھٹ جاتے ہیں،صبح نو ضرور روشن ہوتی ہے اور اپنی ضیا پاشیوں سے پورے عالم کو منور و مطہر کردیتی ہے۔یہ وقت ہمارے لیے آزمائش اور عبرت کے ساتھ نعمت اور رحمت کا بھی پیامبر بنا۔
اس دور پرفتن میں ادبی دنیا میں جو واضح تبدیلی نظر آئی،ادبی حلقوں نے اس کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا۔ادب کی خدمات اور فروغ کو بلا تعطل رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لینا پڑا۔ہمارا تعلیمی نظام ٹیکنالوجی کے ایک نئے دور سے شناسا ہوا۔ڈیجیٹل میڈیا نے ادبی دنیا کو اپنی سہولیات کی فراہمی سے اپنی آغوش میں پناہ دے کر ادب کا تعلق ٹیکنالوجی کے ساتھ اس طرح مربوط کردیا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے اب لازم و ملزوم نظر آتے ہیں۔اس ادغام سے حیران کن اور خوشگوار مثبت اثرات دیکھنے کو ملے۔ویبینار کانفرنس،سیمینار،آن لائن ادبی مذاکرے،مشاعرے،ادبی مباحث ودیگر ٹیکنالوجی کے باعث کامیابی سے انعقاد پذیر ہوتے رہے اور اب بھی جاری و ساری ہیں،اس نے صحیح معنوں میں دنیا بھر کے ادیبوں کو ایک لڑی اور مضبوط کڑی میں پرودیا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ متغیر حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ایسے رجحانات کو فروغ دیا جائے جس سے ادب اور ٹیکنالوجی کا تعلق مزید مضبوط ہو۔طلبا اس کے استعمال سے کماحقہ آگاہ ہوں تاکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے دامن ِ ادب کو زرخیز کرتے ہوئے ادب کی ترقی وترویج میں اپنا موثر کردار اداکرسکیں۔۔
آئے پیار کی تہذیب کا عنوان بن کر
اک نئے عہد کی تخلیق کی کچھ بات کریں
تخلیقی صلاحیتیں کسی کی میراث نہیں۔یہ اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے ہر انسان کو ودیعت کی گئی ہیں۔اصل کام ان صلاحیتوں کو ابھارنا،نکھارنااور سنوارنا ہے۔اردو ورلڈ ایسوسی ایشن ایسا ہی فعال اور منظم ادارہ ہے،جو ادب کی ترویج وترقی میں دامے درمے قدمے سخنے اپنا کردار ادا کررہا ہے۔جس کے چئیرمین پروفیسر خواجہ اکرام الدین صاحب کی دور بیں نگاہ نے شاید قبل از وقت اس بات کا ادراک کرلیا تھا کہ ادب کو ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔وہ کرونائی دور کی ہولناکی سے پہلے ہی ادب کو ٹیکنالوجی کی تیز رفتاری سے آشنا کروانے میں سرگرداں رہے اور تغیر زمانہ میں بھی ان کی کاوشیں پورے زور و شور اور بہترین حکمت عملی کے ساتھ جاری رہیں۔خواجہ اکرام الدین صاحب اور ان کی ٹیم نے جس لگن اورجانفشانی سے ڈیجیٹل دور میں نئے ڈیجیٹل عہد کی طرف پیش قدمی کی ہے،وہ یقیناً قابل تعریف بھی ہے اور قابل تقلید بھی کیونکہ زندہ قوموں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ بروقت مسائل کی نشاندہی کرکے ان کے حل کے تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہیں۔انہوں نے وقت کی ضرورت و اہمیت کو بروقت سمجھ کر ذمہ دارانہ قدم اٹھایا ہے۔
اردو ورلڈ ایسیوسی ایشن نہ صرف دنیا بھر کے ادیبوں،دانش وروں کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے بلکہ اپنی تحقیقی،تخلیقی سرگرمیوں سے طلبا اورادب کے قاری کو بھی فیض یاب کرتا ہے۔کیونکہ وہ اس بات کا کلی ادراک رکھتے ہیں کہ ہمارے طلبا کے زرخیز ذہن تخلیق کا سرچشمہ ہیں۔اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان لیں تو وہ اپنے علم وقلم کی طاقت سے ایک نیا عہد تعمیر وتخلیق کرسکتے ہیں،جس کے وہ درخشاں ستارے ہوں گے۔اردو ورلڈ ایسوسی ایشن ایسے تخلیقی اذہان کو اپنی صلاحیتوں کے بھرپور اظہار کا موقع فراہم کرتا ہے جس سے ان کی پوشیدہ قابلیتوں کو جلا ملے۔اوراب اپنی ای پبلی کیشنز کے ذریعے یہ تمام لوگوں کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کروانے جارہا ہے،جو ادب کے فروغ کے لیے بہت بڑا اور مثبت قدم ہے۔کتابوں کی آن لائن اشاعت کا یہ ایک بڑا پلیٹ فارم ہے۔ موجودہ عہد اور آنے والے دور میں ای۔بُک کا ہی رواج زیادہ ہوگا۔لیکن ای۔پبلی کیشن کے بڑے ادارے ابھی تک اردو کتابوں کی اشاعت کی سہولت نہیں فراہم کرتے۔ اسی ضرورت کے تحت ورلڈ اردو ریسرچ اینڈ پبلی کیشن کی جانب سے اردو احباب کے لیے ای۔ پبلی کیشن کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ برصغیر ہندو پاک کے علاوہ عالمی سطح پر اردو کی بستیوں تک اس کی رسائی ہے۔ ضرورت کے اہل اردو اس جانب متوجہ ہوں اور اس پلیٹ فارم کو تقویت بخشیں۔ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کا شعبہ ورلڈ اردو ریسرچ اینڈ پبلی کیشن کء جانب سے ماہانہ ترجیحات کا اجرا بھی ایک اہپم قدم ہے۔ان اقدامات پر خواجہ اکرام الدین صاحب تعریف و توصیف کے مستحق ہیں اور ان کی کاوشیں صد لائقِ تحسین ہیں۔