شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلایہ کے زیر اہتمام آزادی کے امرت مہوتسو کے موقعے پر آن لائن مذاکرے کا انعقاد
نئی دہلی (28/اکتوبر)
جامعہ ملیہ اسلامیہ نے نہ صرف تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا ہے، بلکہ قومیت کے اس جدید تصور کو تقویت بخشی جس کے بنا پر ہندوستان کا شمار آج دنیا کی بڑی اور مستحکم جمہوریتوں میں ہوتا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد کے نظریہئ ہندوستان اور تصور قومیت کو ٹھوس علمی بنیادیں فراہم کیں۔ ان خیالات کا اظہار شعبہئ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام آزادی کے مہوتسو کے موقعے پر ”تحریک آزادی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اردو“ کے زیر عنوان آن لائن مذاکرے میں جے این یو کے استاذ پروفیسر انور پاشا نے کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ معروف محقق اور نقاد پروفیسر قمر الہدیٰ فریدی نے کہا کہ آزادی کے تصور کا جو خمیر ہے، اس کو ہم جامعہ میں چلتی پھرتی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔
جامعہ نے تعلیم کے میدان میں جس طرح ذہن سازی کی ہے اصل میں جامعہ کے قیام کا مقصد بھی یہی ہے۔ صدر شعبہ پروفیسر شہزاد انجم نے صدارتی خطاب میں کہا کہ آزادی،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اردو ایک ایسا مثلث ہے جو ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔تحریک حریت اور جامعہ ملیہ دونوں کو اردو زبان و ادب میں قوت و استحکام عطا کیا۔ صدر شعبہ اردو، اودے پور پروفیسر حدیث انصاری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ بہت سی پریشانیوں سے گزرا، لیکن آج ہر میدان میں اپنی شناخت قائم کرچکا ہے۔ بانیان جامعہ ماہرین تعلیم ہی نہیں بلکہ مجاہدین آزدی بھی تھے۔
شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی کے استاذ پروفیسر ابوبکر عباد نے مذاکرے میں گفتگو کے دوران کہا کہ ہندوستان کے دو ادارے جن کا براہ راست تعلق تحریک آزادی اور اردو سے رہا ہے دارلعلوم دیوبند اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ہیں۔ جامعہ کے تمام بانیان صاحب تصنیف تھے اور ان کے بغیر اردو کی تاریخ ناقص ہے۔ صدر شعبہ اردو، مولانا آزاد کالج کولکاتا ڈاکٹر دبیر احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو کے فروغ میں جامعہ نے جو کردار ادا کیا ہے اگر ہم چند ابتدائی ناموں پر غور کریں تو ان سب کا تعلق بنیادی طور پر کہیں نہ کہیں اردو سے ہی ہے۔ مذاکرے کی نظامت کے فرائض کنوینر پروگرام ڈاکٹر شاہ عالم نے انجام دیے۔ جلسے کا آغاز شعبے کے طالب علم حافظ عبدالرحمن کی تلاوت اور اختتام شعبے کے استاد ڈاکٹر مشیر احمد کے اظہار تشکر پر ہوا۔
مذاکرے میں پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر کوثر مظہری، پروفیسر خالد جاوید، پروفیسر ندیم احمد، ڈاکٹر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر محمدمقیم، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر جاویدحسن، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر روبینہ شاہین زبیری اور ڈاکٹر آس محمد صدیقی کے علاوہ بڑی تعداد میں شعبے کے ریسرچ اسکالر اور طلبا و طالبات شریک ہوئے۔