Urdu News

سر سید احمد خاں کے بارے میں آنے والی نسلوں کو بتانا ضروری ہے

سر سید احمد خاں

 

 

    

  سر سید احمد خاں کے بارے میں آنے والی نسلوں کو بتانا ضروری ہے
        
سیداحمد خاں ہمارے ملک کے بہت بڑے مصلح تھے۔ انھیں ”سر“ کا خطاب عطا ہوا تھا۔ سید احمد خاں 17اکتوبر 1817کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد مغل دربار میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ ان کے دادا کو مغل دربار سے ”جواد الدولہ“ کا خطاب ملا تھا۔ مغل بادشاہ اکبر شاہ ثانی نے ان کے والد میر متقی کو عہدہئ وزارت کی پیشکش کی مگر اپنی قناعت پسندی کی وجہ سے انھوں نے انکار کر دیا۔
سر سید احمد خاں اور ان کے خاندان کی تفصیلات کچھ یوں ہیں: 
نام۔سید احمد،خطاب۔ سر، اعزاز۔ سی ایس آئی اور کے سی ایس آئی، والد۔ میر متقی، والدہ۔ عزیزالنساء، دادا۔ سیدھادی، پردادا۔ سید عماد، چھردادا۔ سید برہان، مورث اعلیٰ۔ سید محمد دوست۔ 
سید محمد دوست اورنگ زیب عالم گیر کے ہمراہ دکن کی مہم میں شریک ہوئے تھے۔ بعد میں وہ دکن میں ہی بس گئے۔ ان کے لڑکے سید برہان نے دکن سے دہلی آکر سکونت اختیار کرلی۔ ان کے فرزند تھے سید عماد، اور ان کے دو بیٹے تھے۔ سید ہادی اور سید مہدی۔ سید ہادی کو خطاب جواد علی خاں اور منصب ہزاری دیا گیا۔ جب شاہ عالم بادشاہ ہوا تو خطاب جوادالدولہ دیا گیا اور عہد ہ قضائے لشکر عنایت ہوا۔ سید ہادی کے مرنے کے بعد ان کے دوست خواجہ فرید نے اپنی بیٹی کی شادی ان کے بیٹے میر متقی سے کردی۔ میر متقی شادی کے بعد خواجہ فرید کے ہی گھر میں رہنے لگے 
سید احمد خاں کی والدہ عزیز النساء بیگم کی شخصیت کافی متاثر کن تھی۔ ان کی پرورش اور تربیت نے سرسید احمد خان کی زندگی اور اندازفکر پر گہرا اثر ڈالا۔ ایک مرتبہ سید احمد خاں نے کسی ملازم کو تھپڑ ماردیا۔ اس بات سے ناراض ہوکر ان کی والدہ نے فوراً ان کوگھر سے باہر کردیا۔ اور تین دن کے بعد اس شرط پر واپسی کی اجازت دی کہ ملازم سے معافی مانگیں۔ 
سید احمد کو بچپن سے ہی کتابوں کے مطالعے کا بھی شوق تھا۔ اور دہلی کے امراء ورؤسا کی محفل میں بھی جاکر بیٹھتے تھے۔ دہلی کے اس وقت کے مشہور شاعر غالبؔ، صہبائیؔ، آزردہؔ، وغیرہ سے ملنے جاتے تھے اور ان کی علمی مجلسوں میں بھی شامل ہوتے تھے۔ اس وقت ادبی ذوق و شوق رکھناامیرانہ شان کی پہچان تھی۔ 

 ایک انگریز افسر مسٹر ہملٹن نے سید احمد کو نائب منشی بنادیا۔ سید احمد کو غالب کی دیکھا دیکھی جب لکھنے کا شوق ہوا تو ایک کتاب فارسی میں جا م جم کے نام سے1840 میں مرتب کردی۔ پھر دھیرے دھیرے مطالعے کا اور شوق بڑھا تو تین مذہبی رسائل تصنیف کیے اور پھر دہلی کی عمارتوں پر تحقیق کرنا شروع کی اور نتیجہ آثارالصنادید کی شکل میں سامنے آیا۔ آثارالصنادید 1847 میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب ان کا بہت بڑا علمی کارنامہ ہے۔ یہ کتاب انھوں نے دہلی میں منصفی کے زمانے میں لکھی تھی۔ یہ کام انھوں نے جس محنت اور جانفشانی سے کیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قطب مینار کے اکثر کتبے پڑھنے کے لیے انھوں نے باڑھ تک بندھوائے۔ اس کتاب کا ترجمہ مسٹر رابرٹس کلکٹر ومجسٹریٹ نے رائل ایشیاٹک سوسائٹی لندن کے ذریعہ کروایااورسید احمد کو سوسائٹی کا آنریری فیلو مقرر کیا گیا۔1861 تک اس کتاب کا فرانسیسی میں بھی ترجمہ ہوچکا تھا۔ 
سر سید احمد ولایت گئے جہاں انھوں نے ولیم میور کی کتاب ’لائف آف محمد‘ کا جواب بھی لکھا۔ پیرس، لندن، اسکندریہ وغیرہ ممالک کا دورہ کرنے کے بعد وہ وطن واپس آئے۔ وہاں سے وہ مسلمانوں کی ناخواندگی،ناکامی اورپستی کا حال معلوم کرکے لوٹے تھے۔ ہندوستان واپس آنے پر مسلمانوں نے کافی مخالفت کی اور کرسٹان (کرسچن) کا خطاب دے ڈالا۔ کئی علماء نے تو کفر کا فتویٰ بھی صادر کردیا لیکن سید احمد کو صرف اور صرف قوم کی فکر تھی۔ انھوں نے کسی بات کی پرواہ نہیں کی اور اپنے کام میں لگے رہے۔ 
سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد تو انھوں نے ولایت جانے سے پہلے ہی رکھ دی تھی اور اخبار سائنٹفک سوسائٹی بھی شائع ہونا شروع ہوچکا تھا۔ کئی انگریزی کتابوں کے تراجم پر بھی کام ہورہا تھا۔ لندن سے واپس آنے کے بعد انھوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ رسالہ تہذیب الاخلاق کی شروعات کی۔ اس رسالے میں مسلمانوں کی تعلیم وترقی، مذہب، سماجی مسائل کے موضوعات پر مضامین شائع کرنے شروع کیے۔ مسلمانوں کو انگریزی تعلیم کی طرف متوجہ کیا۔بہت کچھ لکھ کر، نئی راہیں دکھا کر، ادارہ سازی کر کے اکیاسی برس کی عمر میں 28مارچ 1898کو سر سید احمد خاں اس دنیا سے رخصت ہوئے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مسجد کے بیرونی حصے میں دفن ہوئے۔ 
  
 (ڈاکٹر شفیع ایوب، ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جے این یو، نئی دہلی، انڈیا)  








                         






                         


                         


















Recommended