جرمنی میں عرب خواتین میں جن میں زیادہ تر کمزور سماجی حیثیت رکھتی ہیں مساجد میں "زواج الفاتح" (اوپن میرج) کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ اس کا مقصد اپنے اصل وطن میں غربت سے فرار یا پھر اپنے غیر ازدواجی جنسی تعلق کو مذہبی کی آڑ فراہم کرنا ہے۔ تاہم اپنے شراکت داروں کی جانب سے چھوڑ دیے جانے کے بعد ان خواتین کے سہانے سپنے اچانک بھیانک خواب میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ وہ بھی جرمنی جیسے ملک میں جہاں کی زبان اور قوانین سے یہ خواتین ناواقف ہوتی ہیں۔معاصر نیوز ویب سائٹ "انڈیپینڈنٹ" (عربی) نے جرمنی میں ایسی کئی خواتین سے بات چیت کی جو "اوپن میرج" کے تجربے سے دوچار ہوئیں۔اوپن میرج بنا کسی معاہدے کے صرف مسجد میں امام کی نگرانی میں انجام پاتی ہے۔ اگرچہ اس شادی کی مشہوری ہوتی ہے تاہم حقوق کے حوالے سے یہ بیوی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔اوپن میرج کی ماری ہوئی یہ خواتین بالخصوص یورپ ہجرت کرنے والی عرب خواتین سوشل میڈیا پر اپنی کہانیاں پوسٹ کرتی ہیں۔ اس کا مقصد اپنی مشکلات کا حل تلاش کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ان خواتین کو جرمن زبان نہیں آتی اوروہ جرمن سرکاری سوسائٹیوں اور اداروں کے ساتھ رابطے قاصر ہوتی ہیں۔
حسن المحافظ جرمنی میں امگریشن ایکسپرٹ اور عرب مہاجرین کے ساتھ سماجی کاموں میں حصہ لینے والے ایک رضا کار بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عرب مہاجرین کی جانب سے "اوپن میرج" میں دل چسپی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ان میں سے بعض لوگوں کو جنگوں کے سبب اپنے اصل وطن سے ذاتی دستاویزات حاصل کرنا دشوار ہوتا ہے۔ لہذا وہ مسجد میں اس "اوپن میرج" کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کا سب سے بہتر راستہ شمار کرتے ہیں۔حسن کے مطابق ایک اور عجہ مردوں کی ایک سے زیادہ شادیوں کی خواہش ہے۔ جرمنی میں قانونی طور پر ایک سے زیادہ شادیاں منع ہیں۔ لہذا ایسے مرد مسجد میں اوپن میرج کی طرف جاتے ہیں۔ اس طرح مرد اپنی پہلی شادی کی قانونی طور پر تصدیق کراتا ہے جب کہ دوسری، تیسری اور کبھی چوتھی یہ تمام شادیاں مسجد میں اوپن میرج کی حد تک رہتی ہیں۔حسن کا کہنا ہے کہ مرد حضرات اپنی ذمے داری سے فرار کی خاطر اسلامی شادی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اوپن میرج کا انجام یہ ہوتا ہے کہ مرد علاحدگی کے بعد اپنی شریک حیات کو نان نفقہ ادا نہیں کرتا۔ بہت سی عورتیں ہیں جو اپنے حقوق سے محروم کر دی گئیں۔ اسی طرح اگر باپ بچے کو تسلیم نہ کرے تو وہ بھی اپنے حقوق سے محروم ہو جاتا ہے۔