Urdu News

عالمی برادری کو خطرات سے بچنے کے لیے طالبان کو تسلیم کرنا ہو گا: ذبیح اللہ مجاہد

عالمی برادری کو خطرات سے بچنے کے لیے طالبان کو تسلیم کرنا ہو گا: ذبیح اللہ مجاہد

افغانستان کے نائب وزیرِ اطلاعات ذبیح اللّٰہ مجاہد کا کہنا ہے کہ افغانستان سے لاحق خطرات سے بچنے کے لیے عالمی برادری کو طالبان کو تسلیم کرنا ہو گا۔افغانستان کے نائب وزیرِ اطلاعات ذبیح اللہ مجاہدنے یہ بات افغان دارالحکومت کابل میں گزشتہ روز ہونے والی پریس کانفرنس میں کہی۔انہوں نے کہا کہ طالبان کو تسلیم نہ کرنے پر کسی خطرے سے بچاؤ کی ذمے داری نہیں لے سکیں گے، ہم نے امریکا سے جنگ کی کیونکہ انہوں نے ہمیں تسلیم نہیں کیا تھا۔ذبیح اللّٰہ مجاہد نے کہا کہ طالبان کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو افغانستان، خطے اور دنیا کے مسائل بڑھیں گے، طالبان کو تسلیم کرنا دو طرفہ ضرورت میں آتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ طالبان حکومت تسلیم کرنے کی عالمی برادری کی تمام پیشگی شرائط پوری کر چکے ہیں، تمام ممالک افغانستان میں اپنے سفارتی مشن کو فعال کریں۔افغانستان کے نائب وزیرِ اطلاعات ذبیح اللّٰہ مجاہد کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان کسی بھی ملک کو فوجی اڈے بنانے کے لیے جگہ نہیں دے گا۔

طالبان سربراہ ملا ہبت اللہ اخوند زادہ کی پہلی مرتبہ عوامی تقریب میں شرکت

افغانستان میں طالبان تحریک کے ذمے داران کے مطابق تحریک کے سپریم کمانڈر ملا ہبت اللہ اخوند زادہ نے ہفتے کی شام قندھار میں ایک تقریب میں شرکت کی۔ واضح رہے کہ 2016ء میں اپنے تقرر کے بعد سے وہ کسی بھی موقع پر سرکاری طور سے منظر عام پر نہیں آئے تھے۔طالبان حکومت نے اتوار کے روز ایک پیغام میں بتایا کہ ہبت اللہ اخوند زادہ قندھار کے معروف دینی مدرسے دارالعلوم الحکیمیہ میں لوگوں کے ایک بڑے مجمع میں ظاہر ہوئے۔ انہوں نے دس منٹ تک طلبہ اور سپاہیوں سے گفتگو کی۔

افغان ذمے داران نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس حوالے سے ایک آڈیو ریکارڈنگ بھی پوسٹ کی ہے۔ ریکارڈنگ میں ملا اخوند زادہ کی آواز غیر واضح طور پر سنائی دے رہی ہے جس میں وہ دعائیں مانگ رہے ہیں۔طالبان سپریم کمانڈر دو گاڑیوں کے ساتھ سخت پہرے میں مذکورہ مدرسے پہنچے تھے۔ اس موقع پر ان کی تصاویر لینے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔اس سے قبل طالبان ترجمان بلال کریمی یہ بتا چکے تھے کہ ہب اللہ اخوند زادہ افغانستان بالخصوص قندھار شہر میں موجود ہیں اور وہ جلد ہی علانیہ طور پر سامنے آئیں گے۔ اخوند زادہ کی یومیہ ذمے داریوں کے بارے میں زیادہ جان کاری نہیں ہے۔ اس لیے کہ ان کی علانیہ موجودگی بڑی حد تک عیدوں کے تہوار پر سالانہ پیغامات جاری کرنے تک محدود ہے۔

Recommended