Urdu News

نام سید سجاد ظہیر اور قلمی نام سَجاد ظہیر تھا

فکشن رائیٹر، ناول نگار و برصغیر کی ترقی پسند تحریک کے رہنماؤں میں سے ایک نامور شاعر سجاد ظہیر

 آج – 05؍نومبر 1905

فکشن رائیٹر، ناول نگار و برصغیر کی ترقی پسند تحریر کے رہنماؤں میں سے ایک نامور شاعر ”#سجاد_ظہیر صاحب“ کا یومِ ولادت….
نام #سید_سجاد_ظہیر اور قلمی نام #سَجاد_ظہیر تھا۔
05؍نومبر 1905ء کو ریاست اودھ کے چیف جسٹس سر وزیر خاں کے گھر پیدا ہوئے۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ادب  پڑھنے کے بعد والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے برطانیہ جاکر آکسفورڈ یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور بیرسٹر بن کر لوٹے۔ وہاں انہوں نے قانون کے ساتھ ادب کا بھی مطالعہ کیا۔
سجاد ظہیر، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانی ارکان میں سے تھے۔ بعد ازاں 1948ء میں انہوں نے فیض احمد فیض کے ساتھ مل کر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی بنیاد رکھی۔ دونوں رہنما بعد میں راولپنڈی سازش کیس کے تحت گرفتار کر لیے گئے۔ محمد حسین عطا اور ظفر ﷲ پشنی سمیت کئی افراد اس مقدمے میں گرفتار ہوئے۔ میجر جنرل اکبر خان اس سازش کے مبینہ سرغنہ تھے۔ 1955ء میں انہیں بھارت جلاوطن کر دیا گیا۔ یہاں انہوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین، انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن اور ایفرو ایشین رائٹرز ایسوسی ایشن کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ سجاد ظہیر ناصرف ان تینوں تنظیموں کے روح رواں تھے بلکہ ان کے بانیوں میں سے تھے۔
سجاد ظہیر نے 11؍ستمبر 1973ء کو الماتے، (قازقستان)، جو تب سوویت یونین کا حصہ تھا، میں ایفرو ایشیائی مصنفین کی تنظیم کے ایک اجلاس کے دوران وفات پائی۔
#بحوالہ_ویکیپیڈیا 
           پیشکش : شمیم ریاض
 معروف شاعر سجاد ظہیر صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب نظمیں بطور خراجِ عقیدت…..
کبھی کبھی بے حد ڈر لگتا ہے 
کہ دوستی کے سب روپہلے رشتے 
پیار کے سارے سنہرے بندھن 
سوکھی ٹہنیوں کی طرح 
چٹخ کر ٹوٹ نہ جائیں 
آنکھیں کھلیں، بند ہوں دیکھیں 
لیکن باتیں کرنا چھوڑ دیں 
ہاتھ کام کریں 
انگلیاں دنیا بھر کے قضیے لکھیں 
مگر پھول جیسے بچوں کے 
ڈگمگاتے چھوٹے چھوٹے پیروں کو 
سہارا دینا بھول جائیں 
اور سہانی شبنمی راتوں میں 
جب روشنیاں گل ہو جائیں 
تارے موتیا چمیلی کی طرح مہکیں 
پریت کی ریت 
نبھائی نہ جائے 
دلوں میں کٹھورتا گھر کر لے 
من کے چنچل سوتے سوکھ جائیں 
یہی موت ہے! 
اس دوسری سے 
بہت زیادہ بری 
جس پر سب آنسو بہاتے ہیں 
ارتھی اٹھتی ہے 
چتا سلگتی ہے 
قبروں پر پھول چڑھائے جاتے ہیں 
چراغ جلتے ہیں 
لیکن یہ، یہ تو 
تنہائی کے بھیانک مقبرے ہیں 
دائمی قید ہے 
جس کے گول گنبد سے 
اپنی چیخوں کی بھی 
بازگشت نہیں آتی 
کبھی کبھی بے حد ڈر لگتا ہے
یک رنگ میں سیکڑوں رنگ ہوتے ہیں 
ہلکے، گہرے، مدھم شفاف 
روشنیوں سے بھرے، چمکتے، جگمگاتے 
سرمئی ابریشمی نقابیں ڈالے 
گھلے ملے 
دھوپ چھاؤں کی آنکھ مچولی کھیلتے 
انوکھے نقوش میں ابھرے اڑتے ہوئے 
یا پھر اتنے گمبھیر 
جیسے جہازوں کے لنگر 
ان میں لہریں ہوتی ہیں 
تڑپتی بے چین طوفانی 
اور ایسی بھی 
جن پر سکون کے سائے 
چھائے ہوئے ہوتے ہیں 
لیکن ان کے نیچے 
پہاڑی جھرنوں کی تیزی، تلملاہٹ 
جستجو کی لہک 
آرزو کی پاگل مہک 
چھپی ہوتی ہے 
اور جب کئی رنگ 
ان کی بے شمار ترنگیں 
طرح طرح کی چھوٹی بڑی 
چھپی اور ظاہر لہریں 
ملتی ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں 
تب نئے حیرت ناک ہیولے 
آدھے پورے بل کھاتے دائرے 
موہوم لکیریں 
لا جواب شکلیں 
اور ایسے پیکر جو کسی دوسری چیز کی طرح نہیں ہوتے 
لیکن جو خود اپنی الگ انوپ ہستی میں 
نئی نویلی دلہن 
نوزائدہ بچے کی طرح 
اچھے لگتے ہیں 
وجود میں آ جاتے ہیں 
جھلملاتے دھبوں کا یہ شعلہ 
انسانی انگلیوں ذہن اور روح کا یہ کرشمہ 
زبان کا یہ جوہری دھماکہ 
زندگی کو پر لگا دیتا ہے 
اسے اتنا اونچا اڑا لے جاتا ہے 
جہاں سے اس دھرتی 
اور اس پر بسنے والوں کو 
ہم یوں دیکھتے ہیں 
جیسے تیتوف نے اسے دیکھا تھا 
اور اس کی سب اچھائیوں 
خوبصورتیوں 
اس کی خوشبوؤں 
لطافتوں رنگینیوں کا پرتو 
ہماری روحوں پر بھی پڑتا ہے 
ہم بدل جاتے ہیں 
ایسا ہی ایک چتر 
تم کو معلوم نہیں 
کن آسمانی رنگوں سے کھینچا 
اپسراؤں کی نہ جانے کیسی جادو مدراؤں سے بھرا 
سورگ کے کون سے مدھر راگوں میں ڈھالا 
اور چپکے سے 
من کے گرم تپتے آنگن میں رکھ دیا 
دفعتاً ہزاروں بہاریں جاگ پڑیں 
گلابی پنکھڑیاں برسنے لگیں 
مہکتی ہواؤں سے 
ہلکی ہلکی ٹھنڈی نرمیاں ٹپک پڑیں 
اور زندگی کی خالی مانگ 
سیندور سے بھر گئی!
تم نے محبت کو مرتے دیکھا ہے؟ 
چمکتی ہنستی آنکھیں پتھرا جاتی ہیں 
دل کے دالانوں میں پریشان گرم لو کے جھکڑ چلتے ہیں 
گلابی احساس کے بہتے ہوئے خشک 
اور لگتا ہے جیسے 
کسی ہری بھری کھیتی پر پالا پڑ جائے! 
لیکن یارب 
آرزو کے ان مرجھائے سوکھے پھولوں 
ان گم شدہ جنتوں سے 
کیسی صندلی 
دل آویز 
خوشبوئیں آتی ہیں!
                   سجاد ظہیر 
             انتخاب : شمیم ریاض

Recommended