جس دن سے طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا ہے، افغانستان کے لوگ ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ لے رہے ہیں۔ افغان شہریوں میں طالبان کا خوف واضح طور پر نظر آرہا ہے کیونکہ طالبان کے آنے کے بعد سے ایک یا دو لاکھ نہیں بلکہ 3 لاکھ سے زائد لوگ اپنا ملک چھوڑ چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اتنے زیادہ افغان مہاجرین کی وجہ سے یورپ میں بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
طالبان کی آمد کے بعد سے روزانہ ہزاروں لوگ افغانستان سے فرار ہو کر پڑوسی ملک ایران میں پناہ لے رہے ہیں اور یورپ میں مہاجرین کا یہ بحران گہرا ہونے لگا ہے۔ ناروے کی مہاجرین کونسل (NRC) کے سیکرٹری جنرل جان انگلینڈ نے اس ہفتے افغانستان کی سرحد سے ملحق مشرقی ایران کے صوبہ کرمان کے قریب مہاجرین سے ملاقات کی۔انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر افغانستان سے لوگ پناہ کی تلاش میں ایران فرار ہوتے رہے تو یورپ متاثر ہو سکتا ہے۔ بدھ کو، اپنے دورے کے آخری دن، انگلینڈ نے تہران میں ایجنسی کو بتایا کہ طالبان کی حکومت کے بعد افغانستان سے بھاگنے ہونے والے لوگوں کو امید، خوراک اور دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین نے اپنے رشتہ داروں کو بتا دیا ہے کہ وہ ایران جا رہے ہیں۔ 15 اگست کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد بڑے پیمانے پر فضائی انخلا کا عمل شروع ہوا۔ ایئر مارس نے 120,000 امریکیوں، افغانوں اور دیگر کو افغانستان سے نکالا ہے۔ لیکن اس کے بعد ہزاروں لوگ رہ گئے، جن میں سے بہت سے سرحدی علاقوں میں چلے گئے ہیں اور امداد فراہم کرنے والی ایجنسیوں سے مدد مانگ رہے ہیں۔
این آر سی کے مطابق طالبان کے قبضے کے بعد 3 لاکھ افغان باشندے افغانستان سے ایران فرار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ افغانستان میں سردیوں کا موسم شروع ہو رہا ہے اور پناہ گزینوں کو پناہ دینے کا کوئی مناسب انتظام نہیں ہے، اس لیے پناہ کی تلاش میں مزید افراد کے ایران آنے کا امکان ہے۔انگلینڈ نے ملک کے باقی حصوں پر زور دیا ہے کہ وہ سردیوں کے موسم سے قبل پڑوسی ممالک جیسے افغانستان اور عیسان کو فوری امداد فراہم کریں۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی یہی صورت حال دیکھی جا رہی ہے، یہاں بھی ہزاروں افغان شہری نقل مکانی کر رہے ہیں۔ طالبان کی آمد کے بعد سے افغانستان کی معیشت تباہی کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔اس وقت ملک کے حالات بد سے بدتر ہو چکے ہیں لیکن طالبان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔