امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکی فوج 2019ء میں شام میں کیے گئے اپنے دو فضائی حملوں پر پردہ ڈال رہی ہے جس میں تقریبا 64 عورتیں اور بچے جاں بحق ہو گئے تھے۔ داعش تنظیم کے ساتھ معرکہ آرائی کے دوران میں ہونے والی یہ کارروائی ممکنہ جنگی جرم ہے۔اخبار نے ہفتے کے روز اپنی رپورٹ میں بتایا کہ الباغوز گاؤں کے نزدیک ہونے والے یہ دو مسلسل فضائی حملے امریکی خفیہ آپریشنز کے یونٹ کے حکم پر کیے گئے۔ یہ یونٹ شام میں زمینی کارروائیوں کا ذمے دار ہے۔نیویارک ٹائمز نے بتایا کہ امریکی مرکزی کمان جو شام میں امریکی فضائی کارروائیوں کی نگرانی کرتی ہے،،، اس نے گذشتہ دنوں کے دوران میں پہلی مرتبہ ان دو حملوں کا اعتراف کیا ہے۔ مرکزی کمان نے ہفتے کے روز جاری بیان میں اسی روایت کو دہرایا کہ دونوں حملوں میں 80 افراد مارے گئے۔ ان میں داعش کے 16 جنگجو اور 4 عام شہری شامل تھے۔
امریکی فوج کے مطابق یہ واضح نہیں ہوا کہ آیا دیگر 60 افراد شہری تھے۔ یہ دونوں حملے اپنے قانونی دفاع میں کیے گئے۔ شہریوں کی موجودگی دور رکھنے کے لیے مناسب اقدامات کیے گئے۔امریکی مرکزی کمان کا کہنا ہے کہ "ہمیں بے قصور افراد کی جانیں جانے کا افسوس ہے۔ ہم نے خود سے ان دونوں حملوں کا اعلان کیا اور اپنے خصوصی شواہد کے مطابق ان کی تحقیقات کیں۔ ہم غیر مطلوب جانی نقصان کی پوری ذمے داری قبول کرتے ہیں۔امریکی فوج نے مزید کہا کہ 60 دیگر مقتولین میں شہریوں کی تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکا کیوں کہ واقعے کی وڈیو ٹیپ میں کئی مسلح خواتین اور کم از کم ایک مسلح بچہ دیکھا گیا۔ لہٰذا غالب گمان ہے کہ بقیہ ساٹھ افراد میں اکثریت جنگجوؤں کی تھی۔امریکی وزارت دفاع کے جنرل انسپکٹر نے 18 مارچ 2019ء کو ہونے والے ان دونوں حملوں کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔ تاہم نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ تحقیقات جامع اور آزاد نہیں تھیں۔اخبار کا کہنا ہے کہ اس کی رپورٹ خفیہ دستاویزات کے علاوہ ان افراد کے انٹرویو پر مبنی ہے جنہوں نے اس کارروائی میں براہ راست حصہ لیا۔