ایران کے بعض حصوں میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو انٹرنیٹ کی خدمت کی عدم فراہمی کا سامنا ہے۔ یہ صورت حال 2019ء کے عوامی احتجاج کو دو سال گزرنے پر سامنے آئی ہے۔یاد رہے کہ مذکورہ عوامی احتجاج کا آغاز 15 نومبر 2019ء کی شام احواز میں ہوا تھا۔ بعد ازاں یہ سلسلہ پچاس سے زیادہ شہروں تک پھیل گیا۔ احتجاج کی وجہ حکومت کی جانب سے ملک بھر میں پٹرول کی قیمتوں میں 300فیصد اضافے کا اعلان تھا۔
نومبر 2019ء کے احتجاج کے دوران میں ایرانی سیکورٹی فورسز اور پاسداران امن نے مظاہروں کو کچلنے کے واسطے غیر معمولی تشدد کا استعمال کیا جس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق عوامی احتجاج میں ایک ہفتے کے اندر کم از کم 1500 مظاہرین ہلاک ہوئے۔ ان میں بچے اور عورتیں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ہزاروں افراد زخمی اور گرفتار ہوئے۔ اس احتجاج کے دوران میں ایرانی حکام نے انٹرنیٹ کی خدمت منقطع کر کے شہریوں اور مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کی خبروں کا میڈیا بلیک آؤٹ کر دیا تھا۔ یاد رہے کہ انٹرنیشنل پیپلز ٹریبونل نے مطالبہ کیا تھا کہ نومبر 2019ء کے احتجاجی مظاہروں میں ہزاروں ایرانی شہریوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کی تحقیقات کرائی جائیں اور اس کے مرتکب افراد کا قانونی محاسبہ کیا جائے۔
مذکورہ ٹریبونل ایرانی ذمے داران کی جانب سے مرتکب انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کا آغاز کرے گی۔ ان ذمے داران میں ایرانی رہبر اعلی علی خامنہ ای اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی سرفہرست ہیں۔ ان دونوں پر ایرانی احتجاجیوں کے خلاف قتل اور خونی اور پرتشدد کریک ڈاؤن کے احکامات جاری کرنے کے الزامات ہیں۔مذکورہ ٹریبونل انسانی حقوق کا دفاع کرنے والی تین تنظیموں کے پْر زور مطالبے پر تشکیل دیا گیا تھا۔