آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ اور ڈاکٹر پیرزادہ فاؤنڈیشن، بنگلور کے زیراہتمام خصائص علیؓ نامی کتاب کااردو زبان میں اجرا
آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے صدر سید محمد اشرف کچھوچھوی نے کہا کہ دہشت گردی کو کسی بھی قیمت پر تلوار یا ہتھیار سے ختم نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح ہتھیاروں سے امن قائم نہیں کیا جاسکتا، اس کے لئے کردار یعنی طرز عمل کی ضرورت ہے۔ اگر ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ کردار کیسا ہوتو ہمیں نبی ؐکا کردار دیکھنا ہے لیکن نبیؐ کو سمجھنے کے لئے علیؓ کو سمجھنا ضروری ہے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار انہوں نے انڈیا اسلامک کلچر سنٹر میں آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ اور ڈاکٹر پیرزادہ فاؤنڈیشن بنگلور کے زیراہتمام کتاب "خصائص علیؓ" کی تقریب رونمائی میں کیا۔ یہ کتاب 600 سال پہلے امام نسائی نے لکھی تھی۔ تقریب میں ترکی اور ایران کے سفیروں سمیت جمہوریہ انڈونیشیا اور عراق کے قونصل جنرل نے شرکت کی۔ اس کے ساتھ ملک کے نامور ماہرین تعلیم، پروفیسرز، علمائے کرام اور مشائخ نے بھی شرکت کی۔
سید محمد اشرف کچھوچھوی نے کہا کہ شروع سے ہی حضرت علیؓ اور ان کی شخصیت کو چھپانے کی کوشش نفرت پھیلانے والوں کی طرف سے کی جاتی رہی ہے تاکہ لوگ علی کو نہ سمجھ سکیں، جب علیؓ کو نہیں سمجھیں گے تو پیغمبر سے دور ہو جائیں گے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ مولا علیؓ کو لوگوں تک پہنچانے کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات لوگوں تک پہنچائی جائیں۔یہ کتاب خصائص علیؓ جو آج ریلیز ہو رہی ہے اس کو میں خود اپنے تمام مدارس اور مکاتب کے نصاب میں شامل کروں گا اور امید ہے کہ میں اس کتاب کو آپ سب تک پہنچائیں گے۔پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن سے ہوا جس کے بعد حضرت تنویر ہاشمی نے استقبال کیا۔ترک سفیر فرت سولین نے کہا کہ ذات علیؓ کو تسلیم کیے بغیر۔ ہم صحیح اور غلط کا فیصلہ نہیں کر سکتے کیونکہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے کہ جہاں علیؓ ہو وہاں حق کو پہچاننے کے لیے علیؓ کو دیکھنا ہو گا۔
ایران کے سفیر جعفری نے کہا کہ علی علیہ السلام علم کا دروازہ ہیں اور اس دروازے سے گزرے بغیر ہم علم کے شہر میں داخل نہیں ہو سکتے۔ عراق اور انڈونیشیا کے کونسل جنرل نے بھی اس کتاب کے اردو ترجمہ پر عوام کو مبارکباد پیش کی۔اس موقع پر پروفیسر اختر الواسع، پروفیسر خواجہ اکرام،اجمیر شریف کے صدر حاجی سید سلمان چشتی اور بورڈ کے جوائنٹ سکریٹری محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء درگاہ نائب سجادانشین سید فرید احمد نظامی، تلنگانہ کے سید علی مصطفی پاشاہ وغیرہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔