جماعت اسلامی ہند کے شعبہ خواتین کے زیر اہتمام منعقدہ ویبنار میں ملک کی ممتاز خاتون سماجی کارکنوں نے شرکت کی اور اپنے آئینی حقوق کے لئے مل کر لڑنے کے عزم کا اظہار کیا۔ویبنار میں متفقہ طور پر یہ بات کہی گئی کہ ہندوستان میں خواتین کو ابھی تک ان کے بہت کم حقوق دیئے گئے ہیں۔لہٰذا آئینی حقوق کے تحفظ کے لئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ ویبنار میں اس بات پربھی روشنی ڈالی گئی کہ فیصلہ ساز اداروں اور عدلہ سمیت تمام بڑے عوامی شعبوں میں ان کی کم شمولیت ہے جس کی وجہ بدعنوان سیاست داں اور بد عنوان حکام ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایسے بدعنوان سیاست داں جو خواتین کی بہتری بلکہ پوری قوم کی بہتری کے لئے آئین کا احترام نہیں کرتے ہیں، انہیں باہر کا راستہ دکھایا جائے۔
جماعت اسلامی ہند ویمن ونگ کی نیشنل سکریٹری محترمہ عطیہ صدیقہ نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ خواتین کے تحفظ کے لئے کافی قوانین موجود ہیں، اس کے باوجود معاشرے میں تشدد عروج پر ہے۔موجودہ وقت میں سوچ میں تبدیلی لانے اور مجموعی ترقی کے لئے خواتین کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کرنے کی ضرورت ہے۔ممتاز سماجی کارکن ارونا نے کہا کہ خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ انسانیت سے زیادہ دولت کمانے کو اہمیت دیتے ہیں، اگر ہمیں اس ملک کو عظیم بنانا ہے تو خواتین کو ان کا حق دینا ہوگا۔معروف وکیل اوانی چوکشی نے کہا کہ آرٹیکل 14,15, 42 اور 51 ہر شہری کو خواتین کے احترام کرنے اور توہین آمیز طرز عمل کو ترک کرنے کا حکم دیتا ہے۔موجود دور میں خواتین کے لئے مشکلات کا انبار ہے۔پورآمی سنگٹھن کے ڈاکٹر سوچرتا نے کہا کہ خواتین کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جاتا۔ اس کے لئے لڑنا ہوگا۔
ہر عورت کو آئین میں فراہم کردہ حقوق سے آگاہ ہونا چاہئے۔نیشل فیڈریشن آف انڈین ویمن کی جنرل سکریٹری اینی راجہ نے کہا کہ ملک میں خواتین کو بدترین صورت حال کا سامنا ہے۔ ملازمتوں میں استحصال اور اجرتوں میں تفریق عروج پر ہے۔ ماہر تعلیم ڈاکٹر پورنیما پٹن شیٹی نے کہا کہ اگلی نسل کے لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان امتیاز کے بغیر تعلیم دینی چاہئے۔ سکریٹری ویمن ونگ جماعت اسلامی ہند محترمہ رحمت النساءنے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ یہ ویبنار مردوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ نااہل نظام کے خلاف ہے۔اگر خواتین کو منصفانہ حقوق نہیں دیئے گئے تو اس کا برا اثر سب پر پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ ایماندار اور انصاف پسند خواتین کو فیصلہ ساز اداروں میں آنا چاہئے۔تعلیم اس کے لئے پہلا قدم ہے لیکن حکومت ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ جیسی اسکیموں سے زیادہ مجسموں پر خرچ کررہی ہے۔ملک کے ہر فرد بالخصوص بااختیار، تعلیم یافتہ افراد کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے موثر کام کریں۔ پروگرام کی کنونر مہناز اسماعیل کے علاوہ قاسمہ شاہین، ڈاکٹر زبیش فردوس، طوبی حیات اور فاخرہ تبسم نے بھی خطاب کیا۔