کرنسی کے سنگین بحران نے ترکی کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جس سے صدر رجب طیب اردغان کے اقتدار پرتقریباً دو دہائیوں کی گرفت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ یہ بحران ایک ایسے ملک میں زندگی کے معیارکو سنجیدگی سے پلٹ رہا ہے جس نے برسوں کی ترقی کا لطف اٹھایا۔ یہ الفاظ ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے ہیں جس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ترکی کی موجودہ معاشی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔
مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں ایک فیصد کمی کے بعد جمعرات کو ترک لیرا ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ کم ترین سطح پر پہنچ گیا اور ترک کرنسی مارچ سے اب تک اپنی قدر کا ایک تہائی سے زیادہ کھو چکی ہے جو ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں بدترین کارکردگی دکھانے والی رواں سال کی بڑی کرنسی ہے۔لیرا کی قدر میں کمی ایردوآن کے لیے ایک خود ساختہ زخم ہے جس نے ایک غیر روایتی اقتصادی حکمت عملی کے تحت شرح سود میں کمی پر زور دیا ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس سے ترقی کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ جمعرات کے روز شرح سود میں کمی تین مہینوں میں تیسری تھی اور صدر کی جانب سے ان کے غیر روایتی معاشی وڑن کی مخالفت کرنے والے سینیر عہدیداروں کو برطرف کرنے کے بعد سامنے آئی ہے۔"یہ پاگل پن ہے۔ اس اقدام کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ اس سال اب تک ہم نے جو شرح میں کمی دیکھی ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے"۔ یہ الفاظ ابھرتے ہوئے مارکیٹوں ’بلیو بے اثاثہ مینجمنٹ“ کے تجزیہ کار ٹموتھی ایش کے ہیں جوانہوں نے شرح سود میں کمی کے بارے میں کہے۔
اردغان ترکی کے متوسط طبقے کے حامی کے طور پر اقتدار میں آئے لیکن اب 2003 میں پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد سے ان کی حکمرانی کے لیے سب سے سنگین چیلنجز میں سے ایک کا سامنا ہے۔رپورٹ کے مطابق اجرتوں پر دباؤ اور خوراک، ادویات اور توانائی جیسی بنیادی اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ایردوآن کی حمایت ختم کر دی ہے اور ان ووٹروں کو الگ کردیا ہے جو پہلے ان کی حمایت کرتے تھے۔ایک خاتون شہری نے کہا کہ ہم ایک تباہی میں جی رہے ہیں، اور ہر چیز مہنگی ہے۔ ہماری کرنسی کو کچل دیا گیا ہے۔ ہمارے پیسے کی تمام قیمت ختم ہو گئی ہے۔
ترک پولنگ فرم میٹرو پول کے مطابق اکتوبر میں صدر کی مقبولیت 38.9 فیصد تک گر گئی جو پچھلے مہینے کے مقابلے میں 2.5 فیصد کم ہے۔ بدھ کے روزترکی کے دو سرکردہ اپوزیشن رہ نماؤں نے معیشت میں بڑھتے ہوئے ہنگاموں کے درمیان فوری انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔تْرک اپوزیشن کے بیانات کے مطابق کہ اس حکومت کے پاس کوئی موقع نہیں ہے۔ اس کے حامیوں کی آوازیں دن بہ دن مدھم ہوتی جا رہی ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں اور ہم جانتے ہیں۔صدر کا استدلال ہے کہ سود کی کم شرح ترقی کو تیز کرے گی۔ یہ نظریہ ان کی حکمران جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے کچھ لوگوں نے شیئر کیا ہے۔ مرکزی بینک کی طرف سے بار بار شرح سود میں کمی نے ترکی میں افراط زر کے دباؤ میں اضافہ کیا ہے اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اکتوبر میں افراط زر کی شرح تقریباً 20 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔