دہلی ہائی کورٹ نے کانگریس لیڈر سلمان خورشید کی نئی کتاب سن رائز اوور ایودھیا پر روک لگانے کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ جسٹس یشونت ورما کی بنچ نے عرضی گزار سے کہا کہ اگر آپ مصنف کی باتوں سے متفق نہیں ہیں تو ان کی کتاب کو نہ پڑھیے۔
ایڈوکیٹ ونیت جندال نے عرضی داخل کی تھی۔ درخواست گزار کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ راج کشور چودھری نے کہا کہ سلمان خورشید ممبر پارلیمنٹ اور ملک کے سابق وزیر قانون ہیں۔ وہ کافی بااثر ہیں۔ ایسے میں ان کی کتاب میں لکھی گئی باتوں سے ہندو برادری کے لوگ مزید مشتعل ہوں گے جس کی وجہ سے ملک میں ہم آہنگی، امن و امان بری طرح متاثر ہوگا۔ اس سے بدامنی کا خدشہ ہے۔
خورشید کی کتاب پر پابندی عائد کرنے کے لیے دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں بھی ایک عرضی دائر کی گئی ہے۔ پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں درخواست ہندو سینا کے صدر وشنو گپتا نے دائر کی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل اکشے اگروال اور سشانت پرکاش نے خورشید کی کتاب کی اشاعت، فروخت اور نشریات پر روک لگانے کی درخواست کی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ جب درخواست گزار نے خورشید کی کتاب کے کچھ اقتباسات پڑھے تو انہیں معلوم ہوا کہ کتاب میں ہندوؤں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑکیاگیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ سیفران اسکائی نامی کتاب کے باب 6 صفحہ نمبر 113 میں سناتن ہندوتو کا موازنہ جہادی اسلامی تنظیموں جیسے آئی ایس اور بوکو حرام سے کیا گیا ہے۔ ایسا کرکے خورشید نے ہندو مذہب کی شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسا کرنے سے ہندوستان اور پوری دنیا میں رہنے والے کروڑوں ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 19(1)(اے) ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی کا حق دیتا ہے لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں۔ آزادی اظہار کا حق ملک اور معاشرے کی ہم آہنگی کی قیمت پر نہیں دیا جا سکتا۔