جنوبی افریقہ سے کورونا وائرس کی ایک نئی قسم اومیکرون کے سامنے آنے کے بعد امریکہ، جاپان، برطانیہ اور کناڈا سمیت متعدد ممالک نے انفیکشن کے نئے خطرات کے پیش نظر افریقہ سے پروازوں پر پابندی لگا دی ہے۔ یورپی یونین نے جنوبی افریقہ سمیت متعدد افریقی ممالک سے آنے والی پروازوں پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
امریکہ نے افریقی ممالک جنوبی افریقہ، بوتسوانا، زمبابوے،نامیبیا، لیسوتھو، ایسواتینی، موزمبیق اور ملاوی سے آنے والی پروازوں پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ پابندیاں پیر سے نافذ العمل ہوں گی۔ اس کے بعد ان علاقوں سے صرف امریکی شہریوں اور رہائشیوں کو ہی امریکہ آنے کی اجازت ہوگی۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ یہ پابندیاں اس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک اس ویرینٹ کے بارے میں تفصیلی معلومات سامنے نہیں آتیں۔
سری لنکا نے چھ افریقی ممالک پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ سری لنکن ہیلتھ ایڈمنسٹریشن کے مطابق اتوار سے جنوبی افریقہ، بوتسوانا، زمبابوے، نامیبیا، لیسوتھو، ایسواتینی ممالک سے آنے والوں پر پابندی ہوگی۔ کناڈا نے سات ممالک پر پابندی لگا دی ہے۔ ان میں جنوبی افریقہ، نامیبیا، لیسوتھو، بوتسوانا، ایسواتینی، زمبابوے اور موزمبیق شامل ہیں۔
سوئٹزرلینڈ نے جنوبی افریقہ سمیت کئی افریقی ممالک کی پروازوں پر عارضی طور پر پابندی لگا دی ہے۔ برطانیہ نے جنوبی افریقہ، نمیبیا، زمبابوے، بوتسوانا، لیسوتھو اور ایسواتینی کے لوگوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اگر ان ممالک سے برطانیہ یا آئرلینڈ کے شہری آتے ہیں تو ان پر پابندی نہیں ہوگی۔
یونان نے بوتسوانا، ایسواتینی، لیسوتھا، موزمبیق، نامیبیا، جنوبی افریقہ اور زمبابوے پر پابندی لگا دی ہے۔ آئرلینڈ نے بھی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ آئرش حکومت نے جنوبی افریقہ سمیت سات افریقی ممالک کے سفر کے حوالے سے نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ اسی دوران جاپان نے کہا ہے کہ ہفتہ سے جنوبی افریقہ سے آنے والے زیادہ تر مسافروں کو 10 دن تک آئیسولیشن میں رکھا جائے گا۔ اس دوران لوگوں کی چار بار اسکریننگ کی جائے گی۔ ایران اور برازیل نے جنوبی افریقہ سمیت چھ افریقی ممالک کی ٹرانسپورٹپر پابندی کا اعلان کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے اس نئے ویرینٹ کوB.1.1.529 قرار دیا ہے۔ کورونا وائرس کے اس نئے قسم کی پہلی بار 24 نومبر کو جنوبی افریقہ میں شناخت ہوئی جس کے بعد یہ بوتسوانا، ملاوی سمیت کئی افریقی ممالک میں پھیل گیا۔ یہاں سے دوسرے ممالک جانے والے مسافروں میں بھی اس کے کیسز پائے گئے ہیں۔