کابل 30 نومبر (انڈیا نیرٹیو)
افغانستان میں اقتدارپر قابض طالبان کی گرفت ہر گزرتے دن کے ساتھ سخت ہوتی جا رہی ہے۔ تازہ ترین واقعہ میں طالبان حکومت کا ہدف میڈیا ہے
طالبان کی جانب سے میڈیا کے نئے رہنما خطوط جاری کیے جانے کے بعد افغانستان میں اظہار رائے کی آزادی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ طالبان نے اعلان کیا ہے کہ کسی میڈیا ہاؤس یا نیوز ایجنسی کو اس کے خلاف خبریں شائع یا نشر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
خامہ پریس نے افغانستان جرنلسٹ پروٹیکشن کمیٹی کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ صوبہ بدخشاں کے مقامی حکام نے میڈیا ہاؤسز کو حکم دیا ہے کہ وہ جائزہ اور تصدیق کے بعد ہی کسی بھی خبر کو شائع یا نشر کریں۔اے جے ایس سی کے مطابق محکمہ اطلاعات و ثقافت کے صوبائی ڈائریکٹر معز الدین احمدی نے کہا کہ خواتین کو عوامی سطح پر رپورٹنگ کرنے کا حق نہیں دیا گیا۔ خواتین میڈیا اہلکار دفتر میں مردوں سے مختلف طریقے سے کام کر سکتی ہیں۔ طالبان کے اس حکم کے بعد کچھ صحافی ملک چھوڑ چکے ہیں جب کہ کچھ روپوش ہو گئے ہیں۔ خواتین کو بھی کام چھوڑنا پڑا۔ میڈیا کی مدد کرنے والی این اے آئی کا کہنا ہے کہ اب تک افغانستان میں میڈیا کے 257 ادارے بند ہو چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے 70 فیصد میڈیااہلکار بے روزگار ہو چکے ہیں۔
مقامی میڈیا نے ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ ایجوکیشن سینٹرز کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے ملک کے 50 فیصد تعلیمی ادارے بند ہیں۔ سنگھ کے سربراہ سنجار خالد کا کہنا ہے کہ ان اداروں کے پاس طلباء کی خاطر خواہ تعداد دستیاب نہیں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کچھ سرکردہ طالبانیوں کو اسکالرشپ پروگرام کے تحت تعلیم کے لیےہندوستھان بھیجا گیا۔