عبدالرحیم نشترؔ نے ”بارہ ماسہ“ کو نئے قالب میں ڈھالا ہے: شمیم طارق
گوگٹے جوگلے کر کالج، رتناگری میں ”بچوں کا سنسار“ کی رسمِ اجراء اور ادیبوں کا اظہارِ خیال
رتناگری: جدید لب و لہجہ کے منفرد اور بچوں کے مشہور و معروف شاعرعبدالرحیم نشترؔ کی بچوں کی نظموں کا پانچواں مجموعہ ”بچوں کا سنسار“ کی تقریبِ رونمائی گوگٹے جوگلے کر کالج، رتناگری کے زیرِ اہتمام رادھا بائی شیٹے سبھا گرہ میں منعقد ہوئی۔ اس پر شکوہ تقریب کی صدارت کالج کے پرنسپل ڈاکٹر پی پی کلکرنی نے فرمائی اور کتاب کا اجرا مراٹھی روزنامہ سکال کے مدیر شریش داملے کے دستِ مبارک سے عمل میں آیا۔ مہمانان کی حیثیت سے معروف محقق، نقاد، شاعر اور کالم نگار جناب شمیم طارق اور د ہلی یونیورسٹی کے پروفیسر محمد کاظم موجود تھے۔
کتاب کا اجراء کرتے ہوئے شریش داملے (مدیر سکال) نے کہا کہ ہر زبان کے ادب میں بچوں کے ادب کی ضرورت ہے کیونکہ بچے اپنی زبان اور تہذیب سے دور ہوتے جارہے ہیں۔انھوں نے مسرت کا اظہار کیا اور بچوں کے ادب کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے شاعر کو مبارک باد پیش کی۔ انھوں نے ”بچوں کا سنسار“ کو ادبِ اطفال میں ایک خوش گوار اضافہ قرار دیا۔
جناب شمیم طارق نے اپنے خطاب میں کہا کہ عبدالرحیم صاحب نے جن سے شکایت کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے انتہائی بے ضرر، بے شرر ہونے کے باوجود اپنا تخلص نشترکیوں رکھا بچوں اور طالب علموں کی کیفیات کو بدلتے موسموں اور مہینوں کے حوالے سے اپنی نظموں میں پیش کیا ہے۔ زیرِ نظر مجموعہئ کلام میں شامل جنوری کا ترانہ، فروری کی راگنی، مارچ کی خوشبو، تو دور کیوں کھڑا رے (اپریل) کیا ہو تم (مئی)، اب مسٹر جون کا جلوہ ہے، تراوٹ کا نغمہ (جولائی)، پندرہ اگست، ستمبر کی تتلی، اکتوبر کا روپ، نومبر کا جاڑا، دسمبر بابا موسمی کیفیات اور بچوں کے احساسات کی آمیزش سے عبارت ہیں۔ ادبِ اطفال میں اس کی مثالیں موجود ہیں اس کے باوجود نشترؔ صاحب کی جدت پسند طبیعت کے کامیاب شعری تجربے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے مختلف نظموں کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ مجموعے میں شامل ہر نظم کا تجزیہ ممکن نہیں ہے اور شاید اس کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ ان چند مثالوں سے بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ عبدالرحیم نشترؔ صاحب جو ادبِ اطفال میں اپنی طباعی و ذہانت کے جوہر دکھاتے رہے ہیں ”بارہ ماسہ“ کو بھی ایک نئے قالب میں ڈھالنے اور ایک نئی معنویت سے ہم کنار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
د ہلی یونیورسٹی کے پروفیسر محمد کاظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ عبدالرحیم نشترؔ کا شمارعصرِ حاضر کے اہم شاعروں میں ہوتا ہے۔وہ جدید شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں اس کے باوجود بھی وہ عہدِ حاضر کے بچوں کے لکھنے والوں میں خصوصی مقام رکھتے ہیں اور نہایت عمدگی سے مختلف موضوعات پر اتنی بے تکلفی سے نظمیں کہہ جاتے ہیں کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے۔ موضوعات کے حدود اور زبان کے حسن پر اتنی مضبوط پکڑ کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔انھوں نے مجموعہ میں شامل ایک نظم ”دسمبر بابا“ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس نظم کو پڑھنے سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ عبدالرحیم نشتر کا تخیل کافی جاندار ہے۔ وہ جن موضوعات کو بھی ہاتھ لگاتے ہیں ان میں جان ڈال دیتے ہیں۔ منظر نگاری اور تصویر کشی سے وہ اپنی نظموں کی فضا کو حسین تر بنادیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان نظموں کو پڑھتے ہوئے ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے ہم ایک بھرے پرے اور زندہ جاوید فطرت کی آغوش میں محو خرام ہیں۔ نظموں میں منظر نگاری نئی بات نہیں ہے مگر ایسی منظر نگاری ادب اطفال میں بہت کم دیکھنے کو مل پاتی ہے جس کی ایک مثال ”بچوں کا سنسار“ ہے۔
ڈاکٹر شفیع ایوب (مرکز ہندوستانی زبان، جے این یو، نئی دہلی) نے مجموعے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ عہدِ حاضر میں جن شعراء نے بچوں کے لیے سنجیدگی سے نظمیں لکھی ہیں ان میں عبدالرحیم نشترؔ اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ بچوں کے لیے لکھنا ایک مشکل عمل ہے کہ موضوع کے ساتھ ساتھ طرزِ بیان کی سادگی پر عبور رکھنے والے ادیب و شاعر ہی بچوں کے نفسیاتی تقاضوں کو پورا کرسکتے ہیں۔مجموعے میں شامل نظموں کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ شاعر نے صرف ”طوطا مینا“ کی باتیں ہی نہیں کی ہیں بلکہ ”گلی کے شیر“ کی عکاسی بھی کی ہے۔ ”کوے راجہ“ سے متعارف بھی کرایا ہے۔ ”میاں مٹھو“ سے ملاقات بھی کرائی ہے اور ”ہمدرد چیونٹی“ کے ساتھ ”جگنو“ سے اٹھکھیلیاں بھی سکھلائی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ نشترؔ صاحب کی یہ کوشش حلقہئ ادب میں قبولیت کا درجہ حاصل کرے گی کہ یہ مجموعہ بچوں کی سدا بہار نظموں پر مشتمل ہے۔
ڈاکٹر عبداللہ امتیاز احمد (صدر شعبہئ اردو، ممبئی یونیورسٹی) نے کہا کہ بارہ ماسہ لکھنے کا رواج اب عنقا ہوچکا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ نشترؔ صاحب نے اس طرف خصوصی توجہ دی اور بچوں کو اس منفرد صنف سے واقف کرایا۔انھوں نے جنوری سے لے کر دسمبر تک تمام بارہ مہینوں کی مختلف کیفیات کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اردو میں ”بارہ ماسہ“ کی روایت میں یہ ایک نہایت خوشگوار اور دلچسپ اضافہ ہے۔ بچے یقیناً اس سے محظوظ و مستفید ہوں گے۔ ان نظموں میں فطرت کا عکس نمایاں ہے۔ بعض نظمیں سبق آموز بھی ہیں اور روشنی کا چھڑکاؤ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
گوگٹے جوگلے کر کالج کے پرنسپل ڈاکٹر پی پی کلکرنی نے صدارتی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمارے کالج میں ادبِ اطفال کی ایک اہم کتاب کی رونمائی ہورہی ہے۔
اظہارِ تشکر کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد دانش غنی نے کہا کہ میرے والد کے کلام پر اہلِ علم نے جو باتیں کہی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ والد صاحب کی کاوشیں رائیگاں نہیں گئی ہیں۔اس موقع پر اقبال سالک اور تاج الدین شاہد نے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا۔
mmmm