Urdu News

شادی کی عمر 21سال معاشرے کے لیے فائدہ یا نقصان؟

محمد حسین شیرانی

محمد حسین شیرانی

نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ نے 2017 میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں آنکھیں کھول دینے والا ڈاٹا سامنے آیا۔بھارت میں 15-18 سال کی 39.4% لڑکیاں اسکول اور کالج چھوڑ دیتی ہیں۔ چھوڑنے والی لڑکیوں میں سے 64.8% لڑکیوں کو گھر کے کام کرنے پر لگا دیا جاتا ہے یاجبری شادیوں میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پربھارت کی خواتین کی خواندگی کی شرح 2018 میں تقریباً 66% تھی جبکہ عالمی اوسط 82.65% تھی۔ خواتین کی خواندگی کی کم شرح کے علاوہ ثانوی تعلیم تک پہنچنے والی لڑکیوں میں تعلیم چھوڑنے کی شرح بھی بھارت میں زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر سالانہ اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ (دیہی) 2017 کے مطابق، 28% لڑکوں کے مقابلے 32% لڑکیاں ثانوی تعلیم میں داخل نہیں ہیں۔ ان تشویشناک اعداد و شمار میں اہم کردار ادا کرنے والے عنصر کو آسانی سے کم عمری کی شادیوں سے منسوب کیا جا سکتا ہے جو کہ یا تو فطرت کے ساتھ زبردستی کی جاتی ہے یا کم عمری کی شادی سے پیدا ہونے والی پیچیدگی کو سمجھنے کے لیے لڑکیاں بہت کم عمر ہوتی ہیں۔

 نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن (این ایس ایس او) کے اپنے 2017 کے متواتر لیبر فورس سروے میں حال ہی میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی خواتین لیبر فورس کی شرکت 23.3 فیصد تھی، دنیا کے صرف تیرہ ممالک میں خواتین لیبر فورس کی شرکت کی شرح کم ہے۔ بھارت میں خواتین کی خواندگی، ثانوی تعلیم میں اندراج اور لیبر فورس کی شرکت سے وابستہ غیر معمولی تعداد کو اس حقیقت سے منسوب کیا جا سکتا ہے کہ لڑکیوں کی اکثر کم عمری میں ہی شادی کر دی جاتی ہے اور مردوں کے علاوہ کسی اور کے نہ کمانے کی روایات خواتین کو گھریلو شعبے میں منتقل کر دیتی ہیں۔ اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر کے کاموں اور بچوں کی ذمہ داری اٹھائے گی۔ ایسا خواتین میں عدم بیداری اورروزگار سے محرومی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بیداری تعلیم کے ذریعے آتی ہے اور تعلیم صرف اسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب شادی میں تاخیر ہو کیونکہ یہ اکثر معاشروں میں دیکھا گیا ہے کہ شادی کے بعد یا بچے پیدا کرنے کے بعد خواتین کو شاذ و نادر ہی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

انتھونی گیڈنز، ایک معروف معاصر ماہر عمرانیات نے اپنی 'گلوبلائزیشن تھیوری' میں کہا کہ ایک عالمگیریت کی دنیا میں خواتین کے کام کرنے سے معاشروں کو خود بخود دیر سے ہونے والی شادیوں کا مشاہدہ کرنے پر مجبور کر دے گی۔ تاہم، ایک عالمی انتظامی مشاورتی فرمZinnovکی طرف سے کئے گئے سروے کے مطابق خواتین کی غیر تکنیکی زمرے میں صرف 30% نمائندگی اور تکنیکی زمرے میں 26% نمائندگی ہے۔ جس میں کمپنیوں کے بورڈز میں صرف 13% نشستیں خواتین کے قبضے میں اور کارپوریٹ سیکٹر میں سینئر خواتین لیڈر 11% ہیں۔ اس کے علاوہ، آل انڈیا سروے آف ہائر ایجوکیشن کی طرف سے کئے گئے ایک حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ ہندوستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں صرف 42% فیکلٹی خواتین ہیں۔

شادی کی عمر کو 21 سال تک بڑھا کر ان تمام مسائل کو مکمل طور پر نہیں تو کم از کم ایک خاص حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔ حکومتی کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک کہ ہم بحیثیت معاشرہ اس اقدام کو نافذ کرنے میں حکومت کی مدد نہ کریں۔ حکومت کا یہ نیک قدم اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک خواتین کے حوالے سے صنفی کردار کے حوالے سے ثقافتی بیانیے کو تبدیل نہیں کیا جاتا۔ بنیادی ڈھانچے کو بڑھا کر اور صنفی مساوات کو اجاگر کرنے والے نصاب کو تبدیل کرکے مزید خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور ملازمت حاصل کرنے کی ترغیب دینے کے لیے اس کی تکمیل کی ضرورت ہے۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا، مجموعی طور پر معاشرہ اپنی نصف آبادی کے ساتھ ناانصافی کا شکار رہے گا۔

حکومت کے اس فیصلے یا کسی بھی فیصلے کو کسی بھی نظریے سے دیکھا، جانچا اور پرکھا جا ساکتا ہے لیکن معاشرت مفاد میں اٹھائے گئے اقدام پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ معاشرے کی نصف آبادی صحت کے ان گنت مسائل سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کچی عمر میں شادی اور بچے زندگی بھر صحت کے مسائل سے جوجھتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں صحت کے مکمل ذرائع کے علاوہ مالی طور پر کمزوری بھی پورے گھر کی زندگی کے سامنے روزانہ نت نئے چیلینجز کھڑے کر دیتے ہیں۔ تو صرف کسی اقدام کے سیاسی پہلو کے ساتھ اس کی معاشرتی ضرورتوں کو بھی دیکھنا ضروری ہے۔

حکومت کی جانب سے شادی کے لئے لڑکیوں کی عمر کو 21 سال کرنے کے پیچھے کے محرکات اور اس سے حاصل ہونے والے ممکنہ نتائج پر غور کیا جائے تو اگر اس کو درست طریقے سے نافذ العمل بنایا جا سکے تو معاشرے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ خواندگی کی شرح بڑھانے کے ساتھ ساتھ صحت کے مسائل بھی حل کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عائلی زنگی کے بارے میں سوچنے اور اس کے لئے تیاری کا موقعہ بھی زیادہ مل سکتا ہے۔ہندوستانی عائلی روایات میں چونکہ گھریلو خرچ کی ذمہ داری ایک مرد پر ہی ہوتی ہے اور اگر کم عمری میں شادی ہو گئی تو اس کے سامنے بھی مسائل ہوں گے۔قبل از وقت ذمہ داری سنبھالناامور خانہ داری کے مسائل میں الجھنا اسے ترقی کی راہوں سے دور کر سکتی ہے۔

وقت کی تبدیلی اور حالات میں بدلاؤ کے ساتھ فکر و عمل میں بھی تبدیلی آنی ضروری ہے۔ وقت اور زمانے کے ساتھ اگر آگے نہ بڑھا گیا تو زمانے سے بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ اس کے دو نقصان ہوں گے ایک تو خود کو ترقی کی راہوں سے دور کر لیں گے دوسرے معاشرتی ترقی کے راستے میں ایک رکاوٹ ثابت ہوں گے۔ اس لئے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں حصہ داری ضروی ہے۔

Recommended