مرزا غالب کے شاگرد بال مکند بے صبرؔ کا نایاب نسخہ ڈیڑھ سو سال بعد تقی عابدی کی محنت سے منظر عام پر آیا
ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں ڈاکٹر تقی عابدی کی تدوین کردہ کتاب ’گلستان ہند بال مکند بے صبر کا اساتذہ اوردانشوران کے ہاتھوں اجرا عمل میں آیا۔ واضح رہے کہ گلستان ہند منشی بال مکند بے صبر کی تصنیف ہے جو پہلی بار1871 میں شائع ہوئی تھی۔ تاہم اس کا آج ایک بھی نسخہ دستیاب نہیں ہے سوائے اس ایک نسخے کے جو ڈاکٹر تقی عابدی کی ذاتی لائبریری کنیڈا میں موجود ہے۔ لہٰذا ڈیڑھ سوسال بعد ڈاکٹر تقی عابدی نے تحقیق و تدوین کے بعد اس نسخے کی اشاعت کی۔ منشی بال مکند بے صبر غالب کے شاگرد اور ہرگوپال تفتہ کے بھانجےتھے۔ اردو فارسی کے بہترین شاعر اور علم عروض و قوافی کے ماہر تھے۔اس کتاب کے محقق کے بقول یہ اردو میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جو سعدی شیرازی کی گلستان کے طرز پر لکھی گئی ہے۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ کتاب حسن یوسف کی طرح ہے جو اب تک کنویں میں بند تھی لیکن اب یہ دنیا کے سامنے پیش کردی گئ ہے جس کی روشنی ادبی دنیا کو یقینا منور کرے گی۔
ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے چیئرمین پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے استقبالیہ کلمات پیش کیے اور تقی عابدی کی اس کتاب کوایک بازیافت اور اردو تحقیق کے باب میں ایک اہم اضافہ قرار دیا۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے عرصہ دراز سے اس نسخہ کو سنبھال کر رکھا اور آج تدوین و تحقیق کے بعد ہمارے سامنے پیش کیا۔اس پروگرام کی مہمان خصوصی کامناپرساد نے اپنی گفتگو میں کہا کہ روزمرہ کی زبان ادب کی زبان سے مختلف ہوتی ہے ، بے صبرؔ کی اردو اگرچہ آج نہیں بولی جاتی لیکن اس کی تاریخی اور تہذیبی اہمیت بہرحال ضرور ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر تقی عابدی نے اس کتاب کا انتساب کامناپرساد کے نام کیا ہے جو اردو کی گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہیں۔اس پروگرام میں صدارت کے فرائض ڈاکٹر اطہر فاروقی نے انجام دیے۔اس موقع پر خلیل الرحمن سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، روی کانت مشرا نہرو میموریل لائبریری، ہندی کے نامور ادیب و شاعر پروفیسر جتیندر کمار اگنو نے بہت اہم گفتگو کی اور پروفیسر رضوان الرحمن،اکٹر توحید خان، ڈاکٹر سمیع الرحمن، ڈاکٹر محسن، ڈاکٹر شفیع ایوب اور ڈاکٹر لیاقت کے علاوہ ریسرچ اسکالروں نے بھی شرکت کی۔