Urdu News

غالب کی چائے جو پیے وہ بھی پچھتایے اور جو نہ پیے وہ بھی پچھتا ئے

غالب کی چائے جو پیے وہ بھی بچتائے اور جو نہ پیے وہ بھی پچتائے

چائے آج کل چرچا کے لیے مشہور ہے۔ چائے کے دیوانے چائے کی تلاش میں ہمہ تن  مصروف رہتے ہیں۔ اچھی اور بری چائے اب صرف کہنے کی بات رہ گئی ہے۔ بس چائے ہونی چاہیے، اسی چائے کی  لت نے لوگوں کو کامیاب اور ناکام دونوں بنادیا ہے۔ اس کی تشریح آپ خود کرلیں تو  کم از کم میں  بچ جاؤں گا۔

طلسمِ مصر ہے اُس کے حسین ہاتھوں میں

جو وُہ بنائے تو چائے کو جام کر دے گا

چائے اور جام کا رشتہ تو جناب غالب صاحب سے ہی  پوچھنے میں ہم سب کی عافیت ہے رونہ تو میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ چائے سے جام  ہر گز مراد نہیں  ہے۔ اردو زبان سے واقفیت رکھنے والوں کے لیے غالب کوئی نیا نام نہیں ہے۔ بلکہ جو صرف اردو لفظ جانتے ہیں وہ بھی غالب کو جانتے ، پہچانتےہیں اور سننے کا شوق و ذوق رکھتے ہیں۔

چائے میں بسکٹ گرا تو دِل کا دورہ پڑ گیا

فوری چمچ نہ ملا تو دِل کا دورہ پڑ گیا

یا پھر یہ شعر

اُس سے پوچھو کہ چائے چھوڑو گے؟

گر کہے ہاں تو اُٹھ کے آ جانا

بہر کیف ! تصویر میں ایک ریڑھی ہے جس پر ’’ غالب کی  چائے ‘‘ لکھا ہوا ہے۔ غالب کے زمانے میں تو چائے ہوتی نہیں تھی، اگر رہی بھی ہوگی  تو غالب یقیناً چائے ناپسند کرتے رہے ہوں گے! تاہم غالب کی چائے کے شاعرانہ نام والی چائے نوئیڈا کے سیکٹر34میں ملنے لگی ہے۔ جس نے ’’ غالب کی چائے ‘‘ نام رکھا اس کو یقیناً داد دینا ہی چاہیے کیوں کہ محض نام کی وجہ سے لوگ چائے کی ریڑھی کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں اور چائے سے لطف حاصل کرتے ہیں۔

شہزاد قیس کی زبان میں’’بے وَفائی کی خیر ہے لیکن، ہائے ظالم نے چائے نہ پوچھی‘‘لیکن یہاں ظالم کوئی اور نہیں بلکہ’’ غالب کی چائے ‘‘ چھوڑ کر جانے والے افراد ہیں’’چائے کا کپ تھا ہاتھ میں وَرنہ،ایسے طعنے پہ اُٹھ کے آ جاتا‘‘۔

Recommended