چین کے صوبہ سنکیانگ میں مسلمانوں کی نسل کشی اور غیر انسانی سلوک کے تناظر میں فروری 2022 میں ہونے والے "بیجنگ اولمپکس" کے بائیکاٹ کا امریکہ کا فیصلہ ہر لحاظ سے ایک منصفانہ ردعمل ہے کیونکہ اس کی تذلیل، اذیتیں اور تکلیفیں سنکیانگ کے اصلاحی کیمپوں میں 2014 میں ملین اویغور مسلمانوں کی موجودگی ناقابل برداشت اور ناقابل بیانیہ ہے۔
انسانی حقوق کے بین الاقوامی نگران ادارے ہیومن رائٹس واچ(HAW) نے بھی تصدیق کی ہے کہ ایغور مسلمانوں کو زبردستی اپنے مذہب اسلام کو ترک کرنے پر سخت پابندیوں اور تشدد کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق چین ہمارا قابل اعتماد دوست ہے۔
اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان کشمیر، تائیوان اور فلسطین سمیت اہم بین الاقوامی مسائل پر مکمل مفاہمت اور تعاون ہے۔ پاک چین دوستی دونوں ممالک کی تاریخ کا قابل فخر سنہری باب ہے۔ تاہم یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمان ایک امت ہیں۔ اسی طرح ہم ایغور مسلمانوں کے مذہبی اور انسانی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔ چین، جس کے پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں، اپنے مفاد میں نہ صرف سنکیانگ صوبے کے اندر موجود مسلمانوں کو حراستی کیمپوں سے آزاد کرائے بلکہ ان کے شہری حقوق سمیت مذہبی آزادی بھی بحال کرے۔
بصورت دیگر چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کو سمجھنا چاہیے کہ امریکہ ایغور مسلمانوں کے حوالے سے چین کے خلاف مسلم عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ ایغور مسلمانوں کے معاملے کو چین کے خلاف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ تاہم عالم اسلام یہ بھی محسوس کر رہا ہے کہ امریکہ کے پوشیدہ عزائم خواہ کچھ بھی ہوں، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ امریکہ جس طرح سے اویغور مسلمانوں کے مصائب کو عالمی سطح پر بے نقاب کر رہا ہے وہ جھوٹ یا پروپیگنڈا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک مکمل اور غیر واضح سچائی ہے جس پر امریکی موقف کو سراہا جانا چاہیے اور اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ بیجنگ انتظامیہ فورا اس مطالبہ پر عمل کرے گا۔