پشاور ہائی کورٹ کے سنگل رکنی بینچ نے چند روز قبل ہندو لڑکی کو شادی کے لیے اغوا کرنے والے ملزم کی ضمانت منظور کرلی۔جسٹس سید ایم عتیق شاہ نے کیس کے مرکزی ملزم عبید الرحمان کی درخواست ضمانت ایک ایک لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی شرط پر منظور کرلی۔چند روز قبل ایک ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے اس کیس میں سات شریک ملزمان کی ضمانت منظور کی تھی لیکن مرکزی ملزم کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے انہیں ضمانت پر رہائی کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا اشارہ کیا تھا۔
ایک ہندو خاتون شکنتلا بی بی کی شکایت پر یہاں ایسٹ کنٹونمنٹ پولیس اسٹیشن میں 20 دسمبر کو ایف آئی آر درج کی گئی تھی، جس نے درخواست گزار اور اس کے مبینہ سہولت کاروں پر اپنی گود لی ہوئی بیٹی کو اغوا کرنے کا الزام لگایا تھا۔سات شریک ملزمان کو پولیس نے پہلے ہی ضمانت پر رہا کر دیا ہے۔یہ مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 365-B(عورت کو شادی پر مجبور کرنے کے لیے اغوا) کے تحت درج کیا گیا تھا۔ایف آئی آر کے اندراج کے بعد مقامی پولیس نے لڑکی کو راولپنڈی سے بازیاب کر کے آٹھ ملزمان کو گرفتار کر لیا تھا۔شکایت کنندہ نے لڑکی اور اس کے بھائی کو 2006 میں اس وقت گود لیا تھا جب وہ شیر خوار تھے۔
درخواست گزار کی جانب سے ایڈووکیٹ اسفندیار خان پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل نے لڑکی کو اغوا نہیں کیا تھا اور وہ اپنی مرضی سے اپنے موکل کے ساتھ چلی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ لڑکی نے مجسٹریٹ کو یہ بھی بتایا کہ اسے اغوا نہیں کیا گیا تھا بلکہ وہ خود گھر سے چلی گئی تھی۔وکیل نے کہا کہ مقدمے میں نامزد ملزمان میں سے سات کو ماتحت عدالت سے ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔اس نے دلیل دی کہ اس کے مؤکل کو ایک جعلی مقدمے میں پھنسایا گیا تھا کیونکہ لڑکی کو کبھی اغوا نہیں کیا گیا تھا اور وہ ضمانت کی رعایت کا حقدار تھا۔شکایت کنندہ کے وکیل نے ضمانت کی درخواست کی مخالفت کی اور کہا کہ ’اغوا‘ ایک نابالغ لڑکی ہے اور اسے شادی کے مقصد سے اغوا کرنا ایک گھناؤنا جرم ہے۔