واشنگٹن۔ 17جنوری
امریکہ میں 80 سال سے زیادہ کی سزا کاٹ رہی پاکستانی نیورو سائنسدان عافیہ صدیقی ایک بار پھر اس وقت سرخیوں میں آگئی ہیں جب ٹیکساس کے ایک عبادت گاہ میں برطانوی یرغمال بنانے والے نے ان کی رہائی کی درخواست کی تھی۔ پچھلا ہفتہ44 سالہ ملک فیصل اکرم نے ٹیکساس کے ایک عبادت گاہ میں چار افراد کو یرغمال بنالیا، جسے امریکی صدر جو بائیڈن نے ’دہشت گردی کی کارروائی‘ قرار دیا۔ اکرم کو اتوار کو ایک کشیدہ تعطل کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔
اس واقعے کی روشنی میں امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے تجزیے میں کہا گیا ہے کہ یرغمالی کے اس واقعے کے بعد پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے ملک کے طور پر ابھرا ہے۔ پاکستان میں، صدیقی ایک کاز سلیبر بن گئی۔ پاکستان کے صدر، وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سبھی نے اس کا معاملہ کو اپنے امریکی ہم منصبوں کے سامنے اٹھایا، اور پاکستانی سینیٹ نے امریکہ سے اسے رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔
امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ (VOA) کے مطابق، صدیقی کا معاملہ اس وقت سے توجہ مبذول کر رہا ہے جب سے اسے 2008 میں مشرقی افغان صوبے غزنی میں ''ڈرٹی بم'' بنانے اور امریکی شہروں پر حملے کرنے کے منصوبہ بنانے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے اہل خانہ اور وکلانے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر امریکی صدیقی کے کیس سے ناواقف ہیں، لیکن عسکریت پسند گروپ اس کی رہائی کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کیس کو مزید ابھارنے کیےلیے استعمال کر رہے ہیں۔ 2010 میں صدیقی کی سزا نے پاکستان میں غم و غصے کو جنم دیا تھا۔ بعد میں، پاکستانی سینیٹ نے 2018 میں ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں انہیں ''قوم کی بیٹی'' کہا گیا تھا اور حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ ان کی وطن واپسی کے لیے ''ٹھوس اقدامات'' کرے۔