Urdu News

ذکی طارق کی تصنیف ’’الفاظ نگر‘‘ایک تنقیدی مطالعہ

خوشبوپروین،ریسرچ اسکالر،یونی ورسٹی آف، دہلی

خوشبوپروین

ریسرچ اسکالر،یونی ورسٹی آف، دہلی

غزل کو اْردو شاعری کی سب سے مقبول صنف سخن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ وہ صنف سخن ہے جسے زمانے کے بدلتے ہوئے تیور کے ساتھ بہت کْچھ  سہنا پڑا کبھی اسے نشیب کا سامنا کرنا پڑا، تو کبھی فراز کا۔لیکِن زمانہ قدیم سے لے کر اب تک اِس کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔اگر کلیم الدین احمد نے غزل کو نیم وحشی صنف سخن کہا، تو وہیں رشید احمد صدیقی نے اْردو شاعری کی آبرو کہا۔آج اگر ہم اکیسویں صدی میں غزل کی بات کریں تو آج بھی غزل ہر طرف آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔اکیسویں صدی میں غزل کہنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے آج کا دور وہ دور ہے کہ آپ کے اطراف میں یا سیدھے لفظوں میں کہیں تو ہر گلی اور نکڑ پر آپ کی ملاقات دو چار شاعروں سے تو ہو ہی جائے گی۔یہ تو صرف میں نے اپنے اطراف کی بات کی ہے ہندوستان بھر میں تو شاعروں کی فہرست درج کریں تو اوراق کم پڑ جائیں لیکِن ایسے وقت میں ہماری نگاہ اچھے شاعروں کو بڑی شدّت سے تلاشتی ہے اْنھیں اچھے شاعروں کے فہرست میں ایک نام ذکی طارق بارہ بنکوی کا بھی شامل ہے۔پیشے سے وہ ایک معلم ہیں اْن کی زندگی کا بیشتر حصّہ درس و تدریس میں ہی صرف ہو رہا ہے۔درس و تدریس ایک ایسا فریضہ ہے جس میں لوگ خود کو فنا کر دیتے ہیں کسی کو بنانے میں، اِس مصروفیت کے باوجود ذکی طارق صاحب اْردو ادب کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں، یہی کاوشیں اْن کی ذات کو اوروں سے علاحدہ کرتی  ہیں۔

موصوف خالص غزل کے شاعر ہیں،اب اِس کا مطلب یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ اْنھوں نے شاعری کی دیگر اصناف پر طبع آزمائی نہیں کی بلکہ اْن کے یہاں غزل کے ساتھ حمد،نعت،منقبت، نظم، قطعہ،مرثیہ،قصیدہ اور گیت، بھی موجود ہیں،یوں تو انھوں نے تمام اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کی لیکِن  اْن کی غزلوں میں ایک خاص رنگ شامل ہے۔ اس وجہ سے مجھے اْنھیں غزل کا شاعر کہنا زیادہ بہتر لگ رہا ہے۔میرا خیال ہے کہ جو جس کام میں نمایاں ہو زیادہ بہتر ہے کہ اْسے اسی صنف سے منسوب کرنا چاہیے۔ ہم غالب کی بات کریں تو اْن کے دِیوان میں غزلوں کے ساتھ قصیدے بھی ہیں مرثیے اور رباعیاں بھی،لیکِن اِس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم غالب کو رباعی گو اور قصیدہ نگار شاعر تسلیم کر لیں۔رباعیاں اْنھوں نے صرف زبان کے چٹخارے کے لیے کہی ہوں گی۔اِس لیے میرا خیال ہے کہ ذکی طارق صاحب کی غزلوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ مجھے جب موصوف کی غزلوں کا مجموعہ’’الفاظ نگر‘‘ پی ڈی ایف کی شکل میں موصول ہوا تو مجھے اس کے مطالعے سے بڑا اطمینان ہوا۔کتاب کے مطالعے کے بعد ایک بات جو ذہن میں آئی وہ یہ کہ آج کے اِس ماحول میں بھی اچھا فن پارہ تخلیق ہو رہا ہے۔

اردو ادب کی یہ روایت رہی ہے کہ جب بھی کوئی غزلوں کا مجموعہ منظرِ عام پر آتا ہے تو اس کی شروعات با قاعدہ حمد سے ہوتی ہے پھر نعت رسول شامل ہوتی ہے۔ اْردو روایت کے عین مطابق ذکی طارق صاحب کے یہاں بھی حمد سے شروعات کی گئی ہےفرق بس اتنا ہے کہ اْنھوں نے اْسے دعا کا نام دیا ہے جس کے متعلق وہ خود کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ،

میں اپنی اِس کاوش پر خود لب کشائی کی جرأ ت نہیں کر سکتا مگر اتنا ضرور عرض کروں گا کہ میں نے اپنے اِس پہلے شعری مجموعہ کلام الفاظ نگر میں کلام کی ابتداء  بارگاہِ اللہ رب العزت میں دعا سے، اور نواسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ با برکت سے کی ہے،،

اکثر و پیشتر یہ دیکھنے کو یہ ملتا ہے کہ صرف روایت کو برتنے کے لیے حمد اور نعت کو شاملِ کتاب کیا جاتا ہے لیکِن ذکی طارق کی نعت کو پڑھ کر یہ شائبہ بھی نہیں گزرتا، اْن کی نعت کو پڑھ کر ایک کیفیت طاری ہوتی ہے۔ نعت پاک کے دو شعر نمونے کے طور پر پیش کر رہی ہْوں جس سے آپ صاحبان کو بخوبی اندازہ ہوجائیگا اْن کی عقیدتِ رسولﷺ کا

جب مرے سرکار ہیں میری شفاعت کے لیے

پھر مجھے فکرو تردد کیوں ہو جنت کے لیے

سوچتا ہوں میں بھی کافر ہوتا یا مشرک ذکی

جو مرے آقا نہیں آتے ہدایت کے لیے

صرف ان دو اشعار سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اْنھیں آقاﷺسے کس قدر عقیدت ہے،اْنھیں نبی کریمﷺکی شفاعت کا کس قدر یقین ہے اور ساتھ ہی یہ خدشہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ نہ جانے میں کافر ہوتا یا مشرک اگر آقاﷺ ہدایت کے لیے اِس روئے زمین پر جلوہ گر نہ ہوتے۔

      اْن کے نعت گوئی کے متعلق  شفیق الدین شایاں رقم طراز ہیں۔

     "ذکی طارق بارہ بنکوی صاحب نعتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے کہتے ہیں کہ اْن کا عقیدہ و ایمان ہے کہ حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول کہنے سے اْن کی بخشش کا ذریعہ ہو جائے گا،،

     ذکی صاحب جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں وہیں وہ آل رسول کی مدحت میں بھی منقبت کے اشعار پیش کرتے ہیں اب یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا متوالا ہو اور اس کی عقیدت آلِ رسولﷺسے نہ ہو۔ذکی طارق نے  اپنی عقیدتکا ثبوت اِس منقبت کے ذریعہ دِیا ہے، منقبت کا ایک شعر دیکھیں،جس میں انسانیت کا بھر پور عکس شامل ہے۔

لطفِ حسین دیکھو کہ سب کچھ گنوا کے بھی

ہونٹوں پہ دشمنوں کے لیے بد دعا نہیں

میرے خیال سے منقبت کا بہترین شعر ہے یہ،اور ہو بھی کیوں نہیں آل رسولﷺکی بات ہو رہی ہے اور بات بھی اس آلِ رسولﷺ کی، جس نے اسلام کو زندہ و جاوید رکھنے کے لیے اپنا سب کچھ راہِ خْدا میں لٹا دیا۔

      ذکی صاحب کی غزلوں میں کوئی ایک رنگ کوئی ایک موضوع نہیں بلکہ اْن کی غزلوں میں موضوعات کی رنگا رنگی پائی جاتی ہے اْنھوں نے غزلوں کو ہی وسیلہ اظہار بنایا،اْن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اْنھوں نے بہت ہی سہل اور آسان زبان کا استعمال کیا۔سادگی اور سلاست اْن کے کلام کا جز لاینفک بن گیا۔اْن کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

یہی چراغ تو ہے میری رات کا سورج

اسے خْدا کے لیے آندھیوں کے پاس نہ رکھ

صد آفریں اے عشق تری راہ گزر میں

گلشن بھی ملے ہیں مجھے صحرا بھی ملا ہے

نازشِ مہر و ماہتاب ہے تو

واہ کس درجہ لاجواب ہے تْو

میں اکثر ذکی صاحب کی غزلوں کو پڑھ کر محظوظ ہوتی رہتی ہْوں۔جناب بہت با قاعدگی سے ہندوستان کے مختلف رسائل و جرائد میں چھپتے رہتے ہیں۔میں اْن کی اِس کتاب کے لیے اْنھیں بے شمار مبارک باد پیش کرتی ہْوں۔ اردو ادب کی دنیا سے یہ امید بھی کرتی ہوں کہ اْن کی اس تخلیق کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

Recommended