سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ریزرویشن میرٹ کے خلاف نہیں ہے بلکہ سماجی انصاف کے تقسیمی اثر کو فروغ دیتاہے۔ سپریم کورٹ نے یہ تبصرہ سپریم کورٹ کے اس حکم پر تفصیلی حکم جاری کرتے ہوئے کیا ہے، جس نے 7 جنوری کونیٹ پی جی داخلوں میں 27 فیصد اوبی سی اور 10 فیصد ای ڈبلیو ایس ریزرویشن کو ہری جھنڈی دی تھی۔
جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ میرٹ کی تعریف کو مسابقتی امتحانات میں کارکردگی تک محدود نہیں رکھا جا سکتاہے۔ عدالت نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 15(4) اور 15(5) سیکشن 15(1) سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ بنیادی مساوات کے اصولوں کو دفعہ 15(1) کے تحت بحال کیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ میرٹ کو کھلے مسابقتی امتحان میں کارکردگی کی ایک تنگ تعریف تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن وہ کسی فرد کی فضیلت، صلاحیت اوراہلیت کی عکاسی نہیں کرتے۔ عدالت نے کہا کہ امتحانات سماجی، اقتصادی اور ثقافتی فوائد کی عکاسی نہیں کرتے جو بعض طبقات کو حاصل ہیں اور ان امتحانات میں ان کی کامیابی میں مدد دیتے ہیں۔
گذشتہ7 جنوری کو اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ ای ڈبلیوایس کی حد 8 لاکھ روپے سالانہ رکھنے کے تنازعہ پر مارچ کے تیسرے ہفتے میں غور کیا جائے گا۔ آمدنی کی یہ حد اس سال کے لیے درست رہے گی۔ اگر کوئی تبدیلی ہوئی تو اس کا اطلاق اگلے اجلاس سے ہوگا۔
سماعت کے دوران فیڈریشن آف ریزیڈنٹ ڈاکٹرس ایسوسی ایشن نے کہا تھا کہ ہر سال پی جی میں 45 ہزار نئے داخلے ہوتے ہیں۔ اس سال کونسلنگ کی کمی کی وجہ سے جونیئر ڈاکٹروں پر کام کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ عدالت نے اس تشویش سے اتفاق کیا۔ مرکز کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ اس طرح کے ریزرویشن کا فیصلہ 2019 میں ہی لیا گیا تھا۔ یونین پبلک سروس کمیشن سمیت کئی جگہوں پر اسے نافذ کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد کمزور طبقے کی بہتری ہے۔