Urdu News

حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی صاحب نعمانی کا انتقال ، ملت کے لیے عظیم خسارہ

حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی صاحب نعمانی کا انتقال ، ملت کے لیے عظیم خسارہ

مفتی  محمد نظر الہدیٰ ندوی

یہ واقعہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلاۃ و التسلیم کے بعد  علما ربانیین کا ظہور پورے عالم کے لیے عطیہ خداوندی اور نعمت عظمیٰ ہے  کیونکہ انبیاء کرام کے وارث اور  ان کے حقیقی جانشیں اور ان کے مشن کا صحیح علمبردار کوئی ہے تو وہ علماء ربانیین ہی ہیں جن کے بارے میں حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی زبانی ارشاد فرمایا کہ "انما العلماء ورثۃ الانبیاء " یعنی انبیاء کرام کے صحیح وارث علماء کرام ہیں۔   تاہم جس قدر علماء ربانیین کا وجود و ظہور  عالم کے لئے  ایک عظیم الشان سوغات اور  نعمت عظمیٰ ہے اسی کے برعکس  ان کی وفات بھی  پورے عالم کے لیے  خسارہ اور موت کے مترادف ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " موت العالِم موت العالَم  کہ عالم کی موت پورے عالم کے لئے موت کے مترادف ہے ۔

درحقیقت علماء ربانیین کا اس دارفانی سے رخصت ہوجانا ایک ایسا حادثہ ہوتاہے جس کی تلافی بسااوقات صدیوں تک نہیں ہوپاتی، دوسرے معنوں میں یہ رفع علم کا سبب بھی  ہوتا ہے جو قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ" اللّٰہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا  کہ  اس کو بندوں سے  چھین لے۔  بلکہ وہ پختہ کار علماء کو موت دے کر علم کو  اٹھائے گا ، حتی کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے۔ ان سے سوالات کئے جائیں گے، اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ،اس لئے وہ  خود بھی  گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی  گمراہ کریں گے" (الحدیث)

یقیناً ایسا ہی ایک حادثہ  گزشتہ کل مؤرخہ  23 جنوری بروز اتوار  ملک کے  معروف و مشہور ممتاز عالم دین,  خانوادہ نعمانی کی بزرگ شخصیت, مناظر اسلام حضرت مولانا منظور احمد صاحب نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند اکبر,جلیل القدر عالم ربانی ، بلیغ مصنف و مفسر حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نعمانی صاحب الآن (رحمۃ اللہ علیہ)  کی وفات کی شکل میں  پیش آیا۔موت  کی یہ سنسنی خیز خبر صدائے بازگشت کی گونج کی طرح پورے پورے عالم اسلام میں پھیل کر امت مسلمہ کے  دلوں کو دہلا دی ہے۔ آج پوری امت مولانا مرحوم کی  فراق  دائمی کے صدمے سے نڈھال اور ماتم کناں ہے  آنکھیں اشکبار ، دل مضطر و غمگین  ہے ۔اللہ آپ کو غریق رحمت فرمائے تغمدہ اللّٰه بغفرانه و بحبحۃ جنانه۔ آمین یارب العالمین۔

رہنے  کو  سدا   دہر  میں  آتا  نہیں  کوئی

تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

لیکن کہتے ہیں کہ انسان جتنا قیمتی اور نایاب ہوتا ہے ان کی یادوں کا  اثر اتناہی  گہرا  اور وسیع  ہوتا ہے، تاہم اس کے پیچھے جو دواعی و محرکات کار فرما ہوتے ہیں ان کا  تعلق براہ راست  انسان کے جواہر و کمالات سے  ہوتا ہے جنہیں وہ  بطور یادگار چھوڑ جاتاہے۔

جوہر انساں  عدم سے آشنا ہوتا نہیں

آنکھ سے اوجھل تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں

 یقیناً  آپ رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اپنے پیچھے  یادوں کے کچھ  ایسے انمول اور قیمتی سوغات بطور میراث  چھوڑ ے ہیں جن  کو  دنیا کبھی فراموش نہیں کرے گی اور  ہمیشہ ان  سے فیضیاب ہوتی رہے گی،وہ آپ کے علمی فکری اور دعوتی کارنامے اور یادگار ہیں ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أذکرو محاسن موتاکم"  اپنے مردوں کی خوبیوں اور کمالات کو بیان کرو۔لہذا اس موقع سے فرمان رسول اللہ کے  بموجب آپ رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی اور آپ کے علمی کارناموں پر بطور تذکیر محاسن ایک طائرانہ نظر ڈالنا اس کوتاہ دست کی طرف  سے ادائے حق  کی ادنی سی کوشش ہوگی ۔

حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی صاحب نعمانی رحمۃ اللہ علیہ بر صغیر ہند و پاک  کے معروف علمی  گھرانے سے  تعلق رکھتے تھے اور آپ شہر آفاق شخصیت  معروف  عالم و مصنف مناظر اسلام حضرت  مولانا محمد منظور نعمانی صاحب  کے بڑے صاحبزادے  اور  مرحوم صحافی حفیظ نعمانی اور مشہور عالم دین مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی کے بھائی  تھے۔ آپ کی تعلیم  مسلک دیوبندی کے  معروف ادارہ  دارالعلوم دیوبند میں درس نظامی کے مطابق ہوئی جہاں آپ نے شیخ الاسلام حضرت مدنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سائے میں رہ کر  ان سے خوب استفادہ کیا۔ مولانا اسعد مدنی، اور مولانا محمد سالم قاسمی آپ کے ہم درس تھے۔

 آپ نے اپنے چھوٹے بھائی حفیظ نعمانی کے ساتھ ملکر  ہفت واری  ندائے ملت نامی رسالہ بھی  نکالا، جس کی سرپرستی داعی اسلام حضرت  مولانا  ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے  خود والد گرامی حضرت  مولانا منظور  نعمانیؒ کرتے تھے۔

 اسی زمانے میں  آپ مسلم مجلس مشاورت کے قیام میں فعال کردار ادا کیا۔  علاوہ ازیں آپ ایک طویل عرصے تک ملک کا مشہور ترین  ماہانہ رسالہ" الفرقان " کے اڈیٹر  بھی رہیں ۔ آپ کے مضامین اپنے عہد میں نہایت فکر انگیز ہوا کرتے تھے۔آپ بیسویں صدی کے نصف  کے بعد  ملک  کے اہم اربابِ قلم میں شمار ہوتے تھے۔ اور مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے آپ کی تحریریں رہنما سمجھی جاتی تھیں۔مولانا اپنی صحت کی خرابی کی بنا پر ۶۷عیسوی میں برطانیہ منتقل ہوگئے۔ جہاں آپ کی علمی خدمات اور مسلمانوں کے مسائل میں متحرک کردار کا سلسلہ جاری رہا۔ اور آپ میں سب سے بڑی بات یہ تھی کہ آپ  اپنے خلوص وسادہ معیار زندگی اور شرافت ووضع داری میں پچھلے زمانوں کی یادگار معلوم ہوتے تھے۔ 

آپ نے اپنی زندگی میں  متعدد اہم کتابیں بھی تصنیف کیں جن میں ''واقعۂ کربلا  اور اس کا پس منظر  ایک نئے مطالعے کی روشنی میں ''،''انقلابِ ایران اور اس کی اسلامیت''،''تین طلاق اور حافظ ابن القیم''  خصوصی طور پر شامل  ہیں ۔

نیز آپ  نے مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور مقالہ ''ردۃ ولا أبا بکر لھا'' کا ترجمہ ''نیا طوفان اور اس کا مقابلہ'' کے عنوان سے کیا  ہے جسے  بہت پسند کیا گیا۔  تاہم آپ  ایک عرصہ دراز تک لندن میں مقیم رہیں اور دعوت و تبلیغ کے کام سے خود کو وابستہ کر لیا اور ان کی سرگرمیوں  کو فروغ دینے کے لیے خود کو  گویا وقف ہی کردیا تھا ۔ آپ کی دیگر سرگرمیوں کی طرح درس قرآن بھی بہت مقبول ہوا اور اس کا ایک علمی نچوڑ  باقاعدہ  کئی  جلدوں پر مشتمل آپ کی تفسیر ''محفلِ قرآن '' کے نام سے شائع ہوئی جو  خاص و عام میں بہت مقبول ہوئی ۔ آپ نے  اپنے والد حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب   کی ایک مفصل سوانح ''حیاتِ نعمانی'' کے نام سے بھی  لکھی،جسے اہلِ علم نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔

یوں تو آپ  درجنوں کتابوں پر کام کیے اور کئی ایک کتابیں تصنیف فرمائیں کتنے مقالات آپ کے اشہب قلم سے صادر ہوے ۔اور آپ کے رشحات قلم سے   کتنے علمی، فکری مجموعے  تیار ہوے جن سے دنیا فیضیاب ہوتی رہیں ،  لیکن آپ کے تصنیفی کارناموں میں " محفل قرآن" 6جلدوں میں جو آپ کی ایک شاہکار تفسیر ہے  اورواقعہ کربلا  ایک پس منظر  نئے مطالعے کی روشنی میں " بہت اہم اور نمایاں ہیں ۔گو  اللہ نے آپ سے دین کا بہت  بڑا کام لیا اور آپ دین کے  مختلف شعبہ جات میں  علالت اور کبر سنی کے باوجود بھی عمر کے آخری زمانے تک  منہمک اور سرگرم عمل ر ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائی تھی جس کی وجہ سے  آپ تقریباً 95 سال عمر پائے  تاہم آپ ایک طویل عرصے سے بیمار تھے ۔جس کی وجہ سے آپ ادھر  کئی سالوں سے دہلی ہی میں   اپنے صاحب زادے مولانا عبید الرحمان سنبھلی کے ساتھ مقیم تھے۔ کل گزشتہ شب مورخہ 23 جنوری بروز اتوار  (دوشنبے کی رات ) قبل عشاء  اس دارفانی کو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے الوداع کہہ کر مولائے حقیقی سے جا ملے۔ اللہ آپ کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔ اور لواحقین اور پسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔  آمین یارب العالمین

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

کہانی ہے تو اتنی ہے فریب خواب ہستی کی

کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے

Recommended